خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے
خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے
ہم نے اب اس کا سایہ دیوار کر لیا ہے
جاتی تھی میرے دل سے جو تیرے آستاں تک
دنیا نے اس گلی میں بازار کر لیا ہے
دے داد آ کے باہر شہ رگ سے خوں ہمارا
اس نے جو اپنا چہرہ گلنار کر لیا ہے
بس چشم خوں فشاں کو ملتے نہیں ہیں آنسو
ورنہ ترا مرکب تیار کر لیا ہے
ہے وجہ کج کلاہی طوق گلو ہمارا
زنجیر پا کو اپنی تلوار کر لیا ہے
محسوس کر رہا ہوں خاروں میں قید خوشبو
آنکھوں کو تیری جانب اک بار کر لیا ہے
اس بار وہ بھی ہم سے انکار کر نہ پایا
ہم نے بھی اب کی اس سے اقرار کر لیا ہے