Ameer Imam

امیر امام

ہندوستانی غزل کی نئی نسل کی ایک روشن آواز

One of the rising stars of new generation Indian urdu ghazal.

امیر امام کی غزل

    شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے

    شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے تیرگی ہر سمت پھیلا کر ہوا خاموش ہے صبح کو پھر شور کے ہمراہ چلنا ہے اسے رات میں یوں دل دھڑکنے کی صدا خاموش ہے کیسا سناٹا تھا جس میں لفظ کن کہنے کے بعد گنبد افلاک میں اب تک خدا خاموش ہے کچھ بتاتا ہی نہیں گزری ہے کیا پردیس میں اپنے گھر کو لوٹتا ...

    مزید پڑھیے

    چھپ جاتا ہے پھر سورج جس وقت نکلتا ہے

    چھپ جاتا ہے پھر سورج جس وقت نکلتا ہے کوئی ان آنکھوں میں ساری رات ٹہلتا ہے چمپئی صبحیں پیلی دوپہریں سرمئی شامیں دن ڈھلنے سے پہلے کتنے رنگ بدلتا ہے دن میں دھوپیں بن کر جانے کون سلگتا تھا رات میں شبنم بن کر جانے کون پگھلتا ہے خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں کوئی پھر ان زخموں ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا

    ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا وہ دیکھو دور کہیں آسماں پگھلنے لگا تو کیا ہوا جو میسر کوئی لباس نہیں پہن کے دھوپ میں اپنے بدن پہ چلنے لگا میں پچھلی رات تو بے چین ہو گیا اتنا کہ اس کے بعد یہ دل خود بہ خود بہلنے لگا عجیب خواب تھے شیشے کی کرچیوں کی طرح جب ان کو دیکھا تو آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    روداد جاں کہیں جو ذرا دم ملے ہمیں

    روداد جاں کہیں جو ذرا دم ملے ہمیں اس دل کے راستے میں کئی خم ملے ہمیں لبیک پہلے ہم نے کہا تھا رسول‌ حسن ہو کارزار عشق تو پرچم ملے ہمیں آئے اک ایسا زخم جو بھرنا نہ ہو کبھی یعنی ہر ایک زخم کا مرہم ملے ہمیں دن میں جہاں سراب ملے تھے ہمیں وہاں آئی جو رات قطرۂ شبنم ملے ہمیں تم جیسے ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنے بند قبا کھولتی تو کیا لگتی

    وہ اپنے بند قبا کھولتی تو کیا لگتی خدا کے واسطے کوئی کہے خدا لگتی یقین تھی تو یقیں میں سما گئی کیسے گمان تھی تو گماں سے بھی ماورا لگتی اگر بکھرتی تو سورج کبھی نہیں اگتا ترا خیال کہ وہ زلف بس گھٹا لگتی ترے مریض کو دنیا میں کچھ نہیں لگتا دوا لگے نہ رقیبوں کی بد دعا لگتی ہوئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا

    کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا اس موت نے کبھی مجھے مرنے نہیں دیا پوچھا تھا آج میرے تبسم نے اک سوال کوئی جواب دیدۂ تر نے نہیں دیا تجھ تک میں اپنے آپ سے ہو کر گزر گیا رستہ جو تیری راہ گزرنے نہیں دیا کتنا عجیب میرا بکھرنا ہے دوستو میں نے کبھی جو خود کو بکھرنے نہیں دیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    مدھم ہوئی تو اور نکھرتی چلی گئی

    مدھم ہوئی تو اور نکھرتی چلی گئی زندہ ہے ایک یاد جو مرتی چلی گئی تھی زندگی کی مثل شب ہجر دوستو اور زندگی کی مثل گزرتی چلی گئی ہم سے یہاں تو کچھ بھی سمیٹا نہ جا سکا ہم سے ہر ایک چیز بکھرتی چلی گئی آئے تھے چند زخم گزرگاہ وقت پر گزری ہوائے وقت تو بھرتی چلی گئی اک اشک قہقہوں سے ...

    مزید پڑھیے

    یوں مرے ہونے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا

    یوں مرے ہونے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا مجھ میں پوشیدہ کسی دریا کو پار اس نے کیا پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا میں تھا اک آواز مجھ کو خامشی سے توڑ کر کرچیوں کو دیر تک میری شمار اس نے کیا دن چڑھا تو دھوپ کی مجھ کو صلیبیں دے گیا رات آئی ...

    مزید پڑھیے

    بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی

    بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی کم سے کم تجھ میں تری ذات تو ہوتی ہوگی یہ الگ بات کوئی چاند ابھرتا نہ ہو اب دل کی بستی میں مگر رات تو ہوتی ہوگی دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے پر ترے شہر میں برسات تو ہوتی ہوگی ہم تو صحرا میں ہیں تم لوگ سناؤ اپنی شہر سے روز ملاقات تو ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    ان کو خلا میں کوئی نظر آنا چاہیے

    ان کو خلا میں کوئی نظر آنا چاہیے آنکھوں کو ٹوٹے خواب کا ہرجانہ چاہیے وہ کام رہ کے شہر میں کرنا پڑا ہمیں مجنوں کو جس کے واسطے ویرانہ چاہیے ہے ہجر تو کباب نہ کھانے سے کیا حصول گر عشق ہے تو کیا ہمیں مر جانا چاہیے اس زخم دل پہ آج بھی سرخی کو دیکھ کر اترا رہے ہیں ہم ہمیں اترانا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3