Amardeep Singh

امردیپ سنگھ

امردیپ سنگھ کی غزل

    حال دل بد سے بد تر ہوا دیکھیے

    حال دل بد سے بد تر ہوا دیکھیے آپ کا کام ہے دیکھنا دیکھیے وہ جو رکھا ہوا ہے جہاں کے لئے آپ خود بھی تو وہ آئنہ دیکھیے عقل والوں کی امداد کے واسطے جاں بکف ہے کوئی سر پھرا دیکھیے شہر جل بجھ گیا لوگ مر کب گئے صبح نو کل نیا حادثہ دیکھیے اس تماشائے اہل سیاست کو آپ دیکھ سکتے ہیں بس ...

    مزید پڑھیے

    صبح دم ہے یہ طبیعت کیسی

    صبح دم ہے یہ طبیعت کیسی خیر اداسی سے شکایت کیسی کیا کوئی خواب ابھی دیکھا تھا آنکھ ملتی ہے حقیقت کیسی دل نے اک وصل مسلسل پا کر تلخ کر لی ہے محبت کیسی بے دھڑک دل کو دکھایا کیجے اس عنایت کی اجازت کیسی یاد آتا ہے خدا پل پل پل ایسی حالت میں عبادت کیسی خود سے دو چار ہوا کرتے ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    اک فقط خود سے گلا باقی رہا

    اک فقط خود سے گلا باقی رہا ورنہ اس دل میں تو کیا باقی رہا اک طرف تیری کمی کھلتی رہی اک طرف اپنا خلا باقی رہا راہ کی آسانیاں جاتی رہیں منزلوں کا مرحلہ باقی رہا زندگی در زندگی چلتی رہی مسئلہ در مسئلہ باقی رہا ہم حد ادراک سے مجبور تھے ہم سے جو تھا ماورا باقی رہا ہو رہیں گے ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    اب گماں ہے نہ یقیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں

    اب گماں ہے نہ یقیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں آسماں کچھ بھی نہیں اور زمیں کچھ بھی نہیں مٹ گیا دل سے عقیدت کا بھرم یعنی اب اس کا در کچھ بھی نہیں اپنی جبیں کچھ بھی نہیں کیوں نہ یک رنگئ حالات سے جی اکتائے اب کوئی بزم طرب دور حزیں کچھ بھی نہیں اب تو ہر حسن و نظر رنگ و مہک ساز و ...

    مزید پڑھیے

    نشاط درد کا دریا اترنے والا ہے

    نشاط درد کا دریا اترنے والا ہے میں اس سے اور وہ مجھ سے ابھرنے والا ہے میں اس کی نرم نگاہی سے ہو گیا مایوس وہ میری سادہ دلی سے مکرنے والا ہے وہ میرے عشق میں دیوانہ وار پھرنے لگے یہ معجزہ تو فقط فرض کرنے والا ہے مرے خیال کی پرواز سے جو واقف ہے وہ آشنا ہی مرے پر کترنے والا ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    تو گیا لیکن تری یادیں یہاں پر رہ گئیں

    تو گیا لیکن تری یادیں یہاں پر رہ گئیں بعد تیرے بس تری باتیں زباں پر رہ گئیں پہلے تیری ذات کا پیکر کہیں پر گم ہوا اور نہ جانے پھر تری یادیں کہاں پر رہ گئیں آج پھر ایسا ہوا جب سوچ کر تجھ کو اے دوست آسماں تکتی نگاہیں آسماں پر رہ گئیں کیا ستم ہے کل تلک جو سامنے آنکھوں کے تھیں آج وہ ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر بھی دل نہیں ٹوٹا ہوا

    اس قدر بھی دل نہیں ٹوٹا ہوا کچھ سمٹ سکتا نہ ہو بکھرا ہوا کب تلک خود کو یہی کہتا رہوں دل پہ مت لے جو ہوا اچھا ہوا کون سے منظر پہ ٹھہرے آنکھ بھی سب نظر آتا ہے بس دیکھا ہوا ہم یقیں کر کے اسے پڑھتے رہے جو بھی تھا حرف گماں لکھا ہوا سب مراسم رکھ گیا دہلیز پر دل گرفتار انا ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    آج یوں ہی سر بہ سر دل بہت اداس ہے

    آج یوں ہی سر بہ سر دل بہت اداس ہے بات کچھ نہیں مگر دل بہت اداس ہے جسم ہے تھکا ہوا حوصلہ نڈھال ہے اور سب سے پیشتر دل بہت اداس ہے شہر ممکنات میں ہو کے نہ امید میں پھر رہا ہوں در بہ در دل بہت اداس ہے پھر ہنسی کو دیکھ کر سب فریب کھا گئے ہے بھلا کسے خبر دل بہت اداس ہے پھر وہ قرب یار ہو ...

    مزید پڑھیے

    شہر کی ویراں سڑک پر جشن غم کرتے ہوئے

    شہر کی ویراں سڑک پر جشن غم کرتے ہوئے جا رہا ہوں خشکئ مژگاں کو نم کرتے ہوئے زندگی تنہا سفر پر گامزن ہوتی ہوئی اور ہم یادوں کو پچھلی ہم قدم کرتے ہوئے بول اٹھتے ہیں کئی برسوں پرانے زخم بھی دل ہو جب مصروف اپنی چپ رقم کرتے ہوئے اس کا بھی کہنا یہی برباد ہو جاؤ گے تم اور ہم بھی ٹھیک ...

    مزید پڑھیے

    نفس نفس اضطراب سا کچھ

    نفس نفس اضطراب سا کچھ ہے زندگی یا عذاب سا کچھ فریب کھاتی ہے پیاس اپنی قدم قدم ہے سراب سا کچھ نئی نئی گفتگو کا نشہ بڑی پرانی شراب سا کچھ کسی وسیلے تو رات گزرے نہ نیند ہے اور نہ خواب سا کچھ ہیں چشم گریاں کو غم ہزاروں چلو کریں انتخاب سا کچھ ان اچھے لوگوں میں واقعی کیا کہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے