نشاط درد کا دریا اترنے والا ہے
نشاط درد کا دریا اترنے والا ہے
میں اس سے اور وہ مجھ سے ابھرنے والا ہے
میں اس کی نرم نگاہی سے ہو گیا مایوس
وہ میری سادہ دلی سے مکرنے والا ہے
وہ میرے عشق میں دیوانہ وار پھرنے لگے
یہ معجزہ تو فقط فرض کرنے والا ہے
مرے خیال کی پرواز سے جو واقف ہے
وہ آشنا ہی مرے پر کترنے والا ہے
ابھی ابھی مرے کچھ دوست آنے والے ہیں
میں سوچتا تھا ہر اک زخم بھرنے والا ہے
فصیل جسم پہ کچھ نقش چھوڑ جائے گا
جو حادثہ مرے دل پر گزرنے والا ہے
بس اس خیال میں بگڑا رہا میں برسوں تک
اب ایک دن میں کوئی کیا سدھرنے والا ہے
وہ بن کے زیست مرے پاس آ گیا ہے امرؔ
یہ وقت میرے لئے عین مرنے والا ہے