اک فقط خود سے گلا باقی رہا
اک فقط خود سے گلا باقی رہا
ورنہ اس دل میں تو کیا باقی رہا
اک طرف تیری کمی کھلتی رہی
اک طرف اپنا خلا باقی رہا
راہ کی آسانیاں جاتی رہیں
منزلوں کا مرحلہ باقی رہا
زندگی در زندگی چلتی رہی
مسئلہ در مسئلہ باقی رہا
ہم حد ادراک سے مجبور تھے
ہم سے جو تھا ماورا باقی رہا
ہو رہیں گے ہم بھی اس کے ایک دن
ہاں اگر دل میں خدا باقی رہا
شہر دل کے با وفا جب کھو گئے
آخرش اک بے وفا باقی رہا
دل سے تیری یاد بھی رخصت ہوئی
اور اب کیا معجزہ باقی رہا
اے دل ناکام کچھ تو کر گزر
یا ابھی کچھ سوچنا باقی رہا