صبح دم ہے یہ طبیعت کیسی

صبح دم ہے یہ طبیعت کیسی
خیر اداسی سے شکایت کیسی


کیا کوئی خواب ابھی دیکھا تھا
آنکھ ملتی ہے حقیقت کیسی


دل نے اک وصل مسلسل پا کر
تلخ کر لی ہے محبت کیسی


بے دھڑک دل کو دکھایا کیجے
اس عنایت کی اجازت کیسی


یاد آتا ہے خدا پل پل پل
ایسی حالت میں عبادت کیسی


خود سے دو چار ہوا کرتے ہیں
ہم کو فرصت میں فراغت کیسی


دل سے اترا ہوا ہے کیوں دل بھی
ایسی باتوں کی وضاحت کیسی


خود سے منسوب کیا کیا کیا کچھ
شاعری میں ہے سہولت کیسی


اہل دل عقل کے دشمن ٹھہرے
ہم کو اے دوست نصیحت کیسی


زندگی خود میں امرؔ خوش تھی بہت
موت نے کر دی شرارت کیسی