Altaf Tanveer

الطاف تنویر

  • 1981

الطاف تنویر کی غزل

    لکیروں میں کہیں اجداد کا پیسہ نہیں ہوتا

    لکیروں میں کہیں اجداد کا پیسہ نہیں ہوتا غریبوں کا نصیبہ ہاتھ پہ لکھا نہیں ہوتا یہ اہل زر غریبوں کو کبھی جینے نہیں دیتے اگرچہ اس نے سب کو ایک سا دیکھا نہیں ہوتا یہ کشکول گدائی ہے فقط معذور کو زیبا کبھی محنت کشوں کے ہاتھ میں کاسہ نہیں ہوتا وہ چاہے جیسی بھی ہو ماں کی ممتا کم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے بسوں پہ یتیموں پہ ہنستی رہی

    بے بسوں پہ یتیموں پہ ہنستی رہی فقرے بے کس پہ دنیا یہ کستی رہی کچھ بھی دنیا میں اس کا تو اپنا نہیں پھر بھی کیوں جان دنیا میں پھنستی رہی چاہی جو نعمتیں تم وہ کھاتے رہے بوڑھی ماں دیکھ کر ہی ترستی رہی میں بلندی کی پرواز کرتا رہا جو رہی میری منزل سو پستی رہی شکر ہر حال میں کیوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    گرتے رہتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں

    گرتے رہتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں پھر اسی راستے پہ چلتے ہیں جلتے ہیں آگ میں بدن لیکن دل فقط عشق ہی میں جلتے ہیں ایک مدت سے دل کے مندر میں کچھ امیدوں کے دیپ جلتے ہیں رزق دینا اسی کی قدرت ہے پتھروں میں بھی کیڑے پلتے ہیں موم کی طرح دل بھی پتھر کے وقت کی دھوپ میں پگھلتے ہیں صرف حالات ...

    مزید پڑھیے

    بات ایسی سنا گیا کوئی

    بات ایسی سنا گیا کوئی ہنستے ہنستے رلا گیا کوئی جیسے دنیا ہی لٹ گئی اپنی دل کے مسکن سے کیا گیا کوئی آنکھوں آنکھوں میں کچھ خموشی میں حال دل کا سنا گیا کوئی کیا ہی سستا کھلونا تھا یہ دل کھیلا توڑا چلا گیا کوئی سارے نظارے ہو گئے اوجھل یوں نظر میں سما گیا کوئی میرے شعروں کی ...

    مزید پڑھیے