لکیروں میں کہیں اجداد کا پیسہ نہیں ہوتا

لکیروں میں کہیں اجداد کا پیسہ نہیں ہوتا
غریبوں کا نصیبہ ہاتھ پہ لکھا نہیں ہوتا


یہ اہل زر غریبوں کو کبھی جینے نہیں دیتے
اگرچہ اس نے سب کو ایک سا دیکھا نہیں ہوتا


یہ کشکول گدائی ہے فقط معذور کو زیبا
کبھی محنت کشوں کے ہاتھ میں کاسہ نہیں ہوتا


وہ چاہے جیسی بھی ہو ماں کی ممتا کم نہیں ہوتی
بھلے ہی آج کل بیٹا ہر اک ماں کا نہیں ہوتا


وراثت بانٹ لیتے ہیں جو بچے اپنے حصے کی
کمائی سب ہے جن کی ان کا ہی حصہ نہیں ہوتا


بھلے تنویرؔ عمدہ کھانا قسمت میں نہ ہو اس کی
کسی مفلس کا بچہ بھی کبھی بھوکا نہیں ہوتا