بات ایسی سنا گیا کوئی

بات ایسی سنا گیا کوئی
ہنستے ہنستے رلا گیا کوئی


جیسے دنیا ہی لٹ گئی اپنی
دل کے مسکن سے کیا گیا کوئی


آنکھوں آنکھوں میں کچھ خموشی میں
حال دل کا سنا گیا کوئی


کیا ہی سستا کھلونا تھا یہ دل
کھیلا توڑا چلا گیا کوئی


سارے نظارے ہو گئے اوجھل
یوں نظر میں سما گیا کوئی


میرے شعروں کی ترجمانی سی
اک حکایت سنا گیا کوئی


سب یہاں سے گئے مگر تنویرؔ
ہیں کہاں یہ بتا گیا کوئی