گرتے رہتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں
گرتے رہتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں
پھر اسی راستے پہ چلتے ہیں
جلتے ہیں آگ میں بدن لیکن
دل فقط عشق ہی میں جلتے ہیں
ایک مدت سے دل کے مندر میں
کچھ امیدوں کے دیپ جلتے ہیں
رزق دینا اسی کی قدرت ہے
پتھروں میں بھی کیڑے پلتے ہیں
موم کی طرح دل بھی پتھر کے
وقت کی دھوپ میں پگھلتے ہیں
صرف حالات ہی نہیں پیارے
ہاں خیالات بھی بدلتے ہیں
کوئی خاموش بھی رہے کتنا
دل میں جذبات تو مچلتے ہیں
مکر تنویر جس کا شیوہ ہے
ایسی دنیا سے دور چلتے ہیں