Altaf Mashhadi

الطاف مشہدی

حسن و عشق اور انقلاب کے شاعر،ڈراما نگار،مشاعرہ کے بڑے شاعر،اپنی نظم "جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لیے " کی وجہ سے مشہور

Revolutionary, romantic poet, playwright & lyricist, known for his poem ‘Jhoom ke Utho watan aazad karne ke liye’

الطاف مشہدی کی غزل

    محبت محبت جوانی جوانی

    محبت محبت جوانی جوانی دلوں کا فسانہ نظر کی کہانی نگاہوں کو دو اذن افسانہ گوئی مرتب کرو کوئی رنگیں کہانی یہ آنسو ہیں تم کھیل سکتے ہو ان سے ستارے نہ سمجھو انہیں آسمانی غموں کے سہارے جئے جا رہا ہوں ترا درد ہے حاصل زندگانی حسیں فرصتیں ہوں میسر تو سن لو نظر میں لیے پھر رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی

    ہو گئی عشق میں بدنام جوانی اپنی بن گئی مرکز آلام جوانی اپنی ماضی و حال ہیں محروم شراب و نغمہ ہائے افسردہ و ناکام جوانی اپنی آہ وہ صبح جو تھی صبح بہار ہستی ہے اسی صبح کی اب شام جوانی اپنی ایک تاریک فضا ایک گھٹا سا ماحول کسی مفلس کا ہے انجام جوانی اپنی انہیں راہوں میں انہیں مست ...

    مزید پڑھیے

    کون اترا نظر کے زینے سے

    کون اترا نظر کے زینے سے محفل دل سجی قرینے سے شیخ صاحب مجھے عقیدت ہے گنگناتے ہوئے مہینے سے مے کو گل رنگ کر دیا کس نے خون لے کر کلی کے سینے سے کوئی ساحل نہ ناخدا اپنا ہم تو مانوس ہیں سفینے سے کس کا اعجاز ہے کہ رندوں کو چین ملتا ہے آگ پینے سے پی کے جیتے ہیں جی کے پیتے ہیں ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    لیٹا ہوا ہوں سایۂ غربت میں گھر سے دور

    لیٹا ہوا ہوں سایۂ غربت میں گھر سے دور دل سے قریں ہیں اہل وطن اور نظر سے دور جب تک ہے دل رہین مآل و اسیر عقل رہنا ہے تجھ سے اور تری رہ گزر سے دور اے کیف ان کی مست نگاہوں میں چھپ کے آ اے درد دم زدن میں ہو میرے جگر سے دور اک دن الٹنے والی ہے زاہد بساط زہد کب تک رہے گا دل نگہہ فتنہ گر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی درد سے قریب رہے

    زندگی درد سے قریب رہے غم کی دولت مجھے نصیب رہے موسم ایسا بھی ہو کوئی صیاد باغ جب وقف عندلیب رہے مسکرا دو کسی کی میت پر موت کیوں تیرہ و مہیب رہے وصل کو وصل جاننے کے لیے زینت بزم اک رقیب رہے جان کا کھیل کھیلنے والو امتحاں کو در حبیب رہے جاگ کر میں نے کاٹ دیں راتیں نیند میں گم ...

    مزید پڑھیے

    خوش رنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا

    خوش رنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا اللہ اس چمن کی بہاروں کو کیا ہوا روشن تھیں جن سے بزم تصور کی خلوتیں ان رشک مہر و ماہ ستاروں کو کیا ہوا ساحل کو پا سکی نہ کبھی کشتیٔ حیات دریائے آرزو کے کناروں کو کیا ہوا اپنے پرائے ہو گئے قسمت کے ساتھ ساتھ مجبور زندگی کے سہاروں کو کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2