زندگی درد سے قریب رہے
زندگی درد سے قریب رہے
غم کی دولت مجھے نصیب رہے
موسم ایسا بھی ہو کوئی صیاد
باغ جب وقف عندلیب رہے
مسکرا دو کسی کی میت پر
موت کیوں تیرہ و مہیب رہے
وصل کو وصل جاننے کے لیے
زینت بزم اک رقیب رہے
جان کا کھیل کھیلنے والو
امتحاں کو در حبیب رہے
جاگ کر میں نے کاٹ دیں راتیں
نیند میں گم مگر نصیب رہے
کس نے الطافؔ دی دعا مجھ کو
درد سے زندگی قریب رہے