خوش رنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا
خوش رنگ و سحر کار نظاروں کو کیا ہوا
اللہ اس چمن کی بہاروں کو کیا ہوا
روشن تھیں جن سے بزم تصور کی خلوتیں
ان رشک مہر و ماہ ستاروں کو کیا ہوا
ساحل کو پا سکی نہ کبھی کشتیٔ حیات
دریائے آرزو کے کناروں کو کیا ہوا
اپنے پرائے ہو گئے قسمت کے ساتھ ساتھ
مجبور زندگی کے سہاروں کو کیا ہوا
نغمہ بلب ہوں اور نہ نالہ بلب ہوں میں
ساز جنون و عشق کے تاروں کو کیا ہوا
لبہائے لالہ گوں ہیں اور اک تلخیٔ عتاب
میٹھے تبسموں کی پھواروں کو کیا ہوا
مدت سے گلستاں ہے برنگ رخ مریض
الطافؔ سرخ سرخ بہاروں کو کیا ہوا