میں بڑی مشکل میں ہوں
جس محل میں میں رہنا چاہتا ہوں اس پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں اور اس کے اندر ایک شخص رہتا ہے جو خود کو بادشاہ کہتا ہے
جس محل میں میں رہنا چاہتا ہوں اس پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں اور اس کے اندر ایک شخص رہتا ہے جو خود کو بادشاہ کہتا ہے
۱ اس طرح لب ہلے کہ راتوں نے اپنے سینے کے راز کھول دئے ۲ منجمد قدموں کو پگھلاتا ہے کون راستہ بن کر چلا جاتا ہے کون ۳ تیرے لبوں پر میرے دل کی خواہش ہے آ جائے نہ کوئی تباہی دیکھ کے چل
باہر بارش شروع ہو چکی ہے میں نے کمرے کی کھڑکی بند کر لی ہے بارش کے پانی نے کھڑکی کے شیشے کی دھول صاف کر دی ہے اب باہر کا منظر صاف نظر آتا ہے لیکن بارش کی وجہ سے ابھی چیزیں دھندلی ہیں بارش تھمے گی تو کھڑکی کھلے گی اور ایک تازہ منظر سامنے ہوگا
رات پھر رگوں میں جیسے چیونٹیاں سی بھر گئیں آنکھیں سرخ ہو گئیں ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا گولیوں کی نیند ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا کمرے کی کھڑکی سے پرے ننھے ننھے پانی کے قطرے ہوا میں گرتے جائیں تب دل کی اک چنگاری شعلہ بن جاتی ہے اک چہرہ پھر سے دھلتا ہے اک صورت پھر یاد آتی ہے
یہ کثافتوں کی جو بہتات ہے اس سے خود کو ہم کہاں تک بچائیں نہ تو سایۂ گنبد نہ کھلے اجلے صحن ایک بے رنگ سی بے روح فضا چھائی ہے صوت و آہنگ نہیں نوک سناں اٹھے ہیں اپنی آواز کو میں خود بھی نہیں سن سکتا
جب جنازہ جا رہا تھا رات کی خاموش باہوں کی طرف اور زمیں کا ایک حصہ اپنا منہ کھولے ہوئے تھا منتظر میں بھی تھا پیچھے تمہارے ساتھ سب کے اور جدا سب سے میں اکیلا لوٹ کر آیا تھا گھر اب بھی اکثر لوٹتا ہوں میں اکیلا ساتھ سب کے اور جدا سب سے
ایک آنچل ہے جو پھیلا ہے افق تا بہ افق ایک سایہ ہے جو چھایا ہے دل وحشی پر نغمگی ایک طرح پھوٹتی رہتی ہے کہیں خامشی رنگ لئے گھومتی رہتی ہے کہیں ڈھونڈھتا رہتا ہوں لہجوں میں کبھی باتوں میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں خوشبو میں کبھی چاندنی راتوں میں تجھے تجھ کو پاؤں تو بہت دل کو سکوں آئے گا تجھ ...
صاف و شفاف پانی کا دھارا قطب شمالی سے قطب جنوبی تک ایک لکیر سی بنائے ہوئے ہے اس صاف و شفاف دھارے کو سیاہ سمندروں نے گھیر لیا ہے سیاہ سمندر نہ تو طوفان اٹھا سکتا ہے نہ ہی کسی کو ڈبو سکتا ہے وہ تو صرف خوف زدہ کر سکتا ہے