Ali Zaheer Rizvi Lakhnavi

علی ظہیر رضوی لکھنوی

علی ظہیر رضوی لکھنوی کی غزل

    کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں

    کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں ہر ایک سلسلہ درہم رہا ہے آنکھوں میں یہاں نہ ساون و بھادوں نہ جیٹھ ہے نہ اساڑھ بس ایک خون کا موسم رہا ہے آنکھوں میں لہو کی آنکھ تھی وہ یا گلو بریدہ تھا یہ کیسے خوف کا عالم رہا ہے آنکھوں میں کبھی ہے درد کا چہرہ کبھی سکون نظر یہ اہتمام تو پیہم ...

    مزید پڑھیے

    درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے

    درد ہر رنگ سے اطوار دعا مانگے ہے لحظہ لحظہ مرے زخموں کا پتا مانگے ہے اتنی آنکھیں ہیں مگر دیکھتی کیا رہتی ہیں یہ تماشا تو خدا جانیے کیا مانگے ہے سب تو ہشیار ہوئے تم بھی سیانے بن جاؤ دیکھو ہر شخص وفاؤں کا صلہ مانگے ہے کان سنتے تو ہیں لیکن نہ سمجھنے کے لئے کوئی سمجھا بھی تو مفہوم ...

    مزید پڑھیے

    نہ آسماں کی کہانی نہ واں کا قصہ لکھ

    نہ آسماں کی کہانی نہ واں کا قصہ لکھ اٹھا دوات و قلم آدمی کا چہرہ لکھ ہزار شور سمیٹے ہوئے ہے میرا وجود مرے وجود کے صحرا کو چشم دریا لکھ بنائے موسم غم ہائے ذات ہے دنیا اسے تو رشک ارم لکھ کہ شاخ طوبیٰ لکھ وہ نور پھیلا وہ پھوٹی کوئی کرن تازہ تمام عمر اندھیرا ہی تھا نہ ایسا لکھ جو ...

    مزید پڑھیے

    ورق انتخاب دل میں ہے

    ورق انتخاب دل میں ہے ایک تازہ کتاب دل میں ہے کس کو دکھلاؤں اپنے جی کا حال روشن اک آفتاب دل میں ہے روشنی ہے اسی کے چہرے کی وہ جو اک ماہتاب دل میں ہے بند آنکھوں میں ایک عالم ہے کسی منظر کا خواب دل میں ہے سب ہی سینے میں ہو رہا ہے ظہیرؔ درد کی کائنات دل میں ہے

    مزید پڑھیے

    دل یہ کہتا ہے کہ اک عالم مضطر دیکھوں

    دل یہ کہتا ہے کہ اک عالم مضطر دیکھوں بارش سنگ میں لوگوں کو کھلے سر دیکھوں پھر وہ موسی کا عصا نیل کا شق ہو جانا فوج فرعون کا میں ڈوبتا منظر دیکھوں آئنے توڑ کے دوڑوں میں کسی جنگل کو اپنی صورت کو کسی جھیل کے اندر دیکھوں میرا سب لے لو مجھے ایک محبت دے دو شہر میں ایسی بھی آواز لگا کر ...

    مزید پڑھیے