Akhtar Saeed Khan

اختر سعید خان

ترقی پسند ادبی نظرے کے شاعر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری بھی رہے

A poet with sympathies for progressive ideology, also worked as the secretary of Progressive Writers Association

اختر سعید خان کی غزل

    سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا

    سفر ہی شرط سفر ہے تو ختم کیا ہوگا تمہارے گھر سے ادھر بھی یہ راستہ ہوگا زمانہ سخت گراں خواب ہے مگر اے دل پکار تو سہی کوئی تو جاگتا ہوگا یہ بے سبب نہیں آئے ہیں آنکھ میں آنسو خوشی کا لمحہ کوئی یاد آ گیا ہوگا مرا فسانہ ہر اک دل کا ماجرا تو نہ تھا سنا بھی ہوگا کسی نے تو کیا سنا ...

    مزید پڑھیے

    سر میں سودائے وفا رکھتے ہیں

    سر میں سودائے وفا رکھتے ہیں ہم بھی اس عہد میں کیا رکھتے ہیں واسطہ جس کا ترے غم سے نہ ہو ہم وہ ہر کام اٹھا رکھتے ہیں بن کھلی ایک کلی پہلو میں ہم بھی اے باد صبا رکھتے ہیں بت کدہ والو تمہیں کچھ بولو وہ تو چپ ہیں جو خدا رکھتے ہیں غیرت عشق کوئی راہ نکال ظلم وہ سب پہ روا رکھتے ہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    اک کرن مہر کی ظلمات پہ بھاری ہوگی

    اک کرن مہر کی ظلمات پہ بھاری ہوگی رات ان کی ہے مگر صبح ہماری ہوگی ہم صفیران چمن مل کے پکاریں تو ذرا یہیں خوابیدہ کہیں باد بہاری ہوگی اس طرف بھی کوئی خوشبو سے مہکتا جھونکا اے صبا تو نے تو وہ زلف سنواری ہوگی یہ جو ملتی ہے ترے غم سے غم دہر کی شکل دل نے تصویر سے تصویر اتاری ...

    مزید پڑھیے

    بلائے تیرہ شبی کا جواب لے آئے

    بلائے تیرہ شبی کا جواب لے آئے بجھے چراغ تو ہم آفتاب لے آئے بکھر گئے جو کبھی چشم انتظار کے رنگ اس انجمن سے ہم اک اور خواب لے آئے ہم اس زمین پہ میزان عدل رکھتے ہیں کہو زمانے سے فرد حساب لے آئے ہر ایک غم سے سلامت گزر گیا ہے دل خدا کرے کہ محبت کی تاب لے آئے گئے تھے ہم بھی ان آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    دل کی راہیں ڈھونڈنے جب ہم چلے

    دل کی راہیں ڈھونڈنے جب ہم چلے ہم سے آگے دیدۂ پر نم چلے تیز جھونکا بھی ہے دل کو ناگوار تم سے مس ہو کر ہوا کم کم چلے تھی کبھی یوں قدر دل اس بزم میں جیسے ہاتھوں ہاتھ جام جم چلے ہائے وہ عارض اور اس پر چشم نم گل پہ جیسے قطرۂ شبنم چلے آمد سیلاب کا وقفہ تھا وہ جس کو یہ جانا کہ آنسو تھم ...

    مزید پڑھیے

    آج بھی دشت بلا میں نہر پر پہرا رہا

    آج بھی دشت بلا میں نہر پر پہرا رہا کتنی صدیوں بعد میں آیا مگر پیاسا رہا کیا فضائے صبح خنداں کیا سواد شام غم جس طرف دیکھا کیا میں دیر تک ہنستا رہا اک سلگتا آشیاں اور بجلیوں کی انجمن پوچھتا کس سے کہ میرے گھر میں کیا تھا کیا رہا زندگی کیا ایک سناٹا تھا پچھلی رات کا شمعیں گل ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    مآل گردش لیل و نہار کچھ بھی نہیں

    مآل گردش لیل و نہار کچھ بھی نہیں ہزار نقش ہیں اور آشکار کچھ بھی نہیں ہر ایک موڑ پہ دنیا کو ہم نے دیکھ لیا سوائے کشمکش روزگار کچھ بھی نہیں نشان راہ ملے بھی یہاں تو کیسے ملے سوائے خاک سر رہ گزار کچھ بھی نہیں بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں نہ بن ...

    مزید پڑھیے

    جان دی کس کے لئے ہم یہ بتائیں کس کو

    جان دی کس کے لئے ہم یہ بتائیں کس کو کون کیا بھول گیا یاد دلائیں کس کو جرم کی طرح محبت کو چھپا رکھا ہے ہم گنہ گار نہیں ہیں یہ بتائیں کس کو روٹھ جاتے تو منانا کوئی دشوار نہ تھا وہ تعلق ہی نہ رکھیں تو منائیں کس کو کون دیتا ہے یہاں خواب جنوں کی تعبیر خواب ہم اپنے سنائیں تو سنائیں کس ...

    مزید پڑھیے

    پھرتی ہے زندگی جنازہ بہ دوش

    پھرتی ہے زندگی جنازہ بہ دوش بت بھی چپ ہیں خدا بھی ہے خاموش کوئی میری طرح جئے تو سہی زندگی در گلو اجل بر دوش دیدنی تھی یہ کائنات بہت ہم بھی کچھ دن رہے خراب ہوش گھر سے طوف حرم کو نکلا تھا راہ میں تھی دکان بادہ فروش اک تعلق قدم کو راہ سے ہے میں نہ آوارہ ہوں نہ خانہ بدوش ہم سے غافل ...

    مزید پڑھیے

    نیرنگیٔ نشاط تمنا عجیب ہے

    نیرنگیٔ نشاط تمنا عجیب ہے کچھ شام سے قفس میں اجالا عجیب ہے شرما رہے ہیں تار گریبان و چاک دل کچھ دن سے رنگ لالۂ صحرا عجیب ہے ہر خواب اعتبار شکستوں سے چور ہے دل میں مگر غرور تمنا عجیب ہے سارا بدن ہے دھوپ میں جھلسا ہوا مگر دل پر جو پڑ رہا ہے وہ سایہ عجیب ہے پھینکے نہیں ہیں آج تلک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4