بلائے تیرہ شبی کا جواب لے آئے
بلائے تیرہ شبی کا جواب لے آئے
بجھے چراغ تو ہم آفتاب لے آئے
بکھر گئے جو کبھی چشم انتظار کے رنگ
اس انجمن سے ہم اک اور خواب لے آئے
ہم اس زمین پہ میزان عدل رکھتے ہیں
کہو زمانے سے فرد حساب لے آئے
ہر ایک غم سے سلامت گزر گیا ہے دل
خدا کرے کہ محبت کی تاب لے آئے
گئے تھے ہم بھی ان آنکھوں سے مانگنے کیا کیا
وہی ہوا کہ بس اک اضطراب لے آئے
ہماری لغزش پیہم کو رائیگاں نہ سمجھ
عجب نہیں کہ یہی انقلاب لے آئے
نہ لائے کچھ بھی ہم آشوب دہر میں اخترؔ
بس ایک حوصلۂ اضطراب لے آئے