کب تک گھٹ کر جیتے رہتے سچائی کے مارے خواب

کب تک گھٹ کر جیتے رہتے سچائی کے مارے خواب
پلکوں کی دہلیز سے باہر نکلے پھر بنجارے خواب


فطرت سے ہی آوارہ ہیں کب ٹھہرے جو ٹھہریں گے
کیسے پلکوں پر اٹکے ہیں کچھ خوش رنگ تمہارے خواب


اب مولیٰ ہی جانے ان میں اپنا کون پرایا کون
ہنس ہنس کر ہر شب ملتے ہیں یوں تو اتنے سارے خواب


جیون کی اس آپا دھاپی میں جو پیچھے چھوٹ گئے
جانے اب کس حال میں ہوں گے وہ قسمت کے مارے خواب


تعبیروں کی فصلیں کیسی اگتی ہیں کل دیکھیں گے
ہم نے بھی بوئے ہیں شب بھر رنگ برنگے پیارے خواب


کب اکھلیشؔ توقع کی تھی برفیلی اس گھاٹی سے
آنکھوں سے برسیں گے اس کی بن کر یوں انگارے خواب