جن سے ڈرتے تھے مراسم ان حدوں تک آ گئے

جن سے ڈرتے تھے مراسم ان حدوں تک آ گئے
آپ سے پھر رفتہ رفتہ خود سے ہم اکتا گئے


ریت پر کچھ دور تک دیکھے تھے ہم نے صاف صاف
پھر غبار اٹھا کوئی وہ نقش بھی دھندھلا گئے


خودکشی سورج نے کر لی یہ بتانے کے لیے
کالے رنگوں کے پرندے آسماں پر چھا گئے


چند جگنو ہیں یہاں پر اور مسلسل تیرگی
صاحبو ہم شمع لے کر کس کھنڈر میں آ گئے


وہ ولی ہے اور نہ بادہ خوار ہے دانشوروں
آپ بھی ہم زاد سے میرا ہی دھوکا کھا گئے