فریب کھانا نہیں بار بار چیختا ہے

فریب کھانا نہیں بار بار چیختا ہے
ندی کی تہ سے کوئی ریگزار چیختا ہے


بدن کے غار سے بے اختیار چیختا ہے
شکار ہونے سے پہلے شکار چیختا ہے


تمام دن تو نہیں ٹوٹتا طلسم صدا
تمام رات بھی بس انتظار چیختا ہے


ادھر نہ جانا ادھر راستے میں منزل ہے
سفر کا لطف سر رہ گزار چیختا ہے


محاذ جنگ میں پہلے حریف طے تو ہوں
لگام تھامے ہوئے شہسوار چیختا ہے


تمام عمر کا حاصل ہے صرف تنہائی
بلندیوں سے کوئی کہسار چیختا ہے


اسی لیے تو میں خود سے ہی بھاگا پھرتا ہوں
کوئی ہے مجھ میں نصیحت گزار چیختا ہے