تنہائیوں میں اشک بہانے سے کیا ملا

تنہائیوں میں اشک بہانے سے کیا ملا
خود کو دیا بنا کے جلانے سے کیا ملا


مجھ سے بچھڑ کے ریت سا وہ بھی بکھر گیا
اس جانے والے شخص کو جانے سے کیا ملا


اب بھی مرے وجود میں ہر سانس میں وہی
میں سوچتا ہوں اس کو بھلانے سے کیا ملا


تو کیا گیا کہ دل مرا خاموش ہو گیا
ان دھڑکنوں کے شور مچانے سے کیا ملا


اپنے ہی ایک درد کا چارہ نہ کر سکے
سارے جہاں کا درد اٹھانے سے کیا ملا


جس کے لیے لکھا اسے وہ تو نہ سن سکا
وہ گیت محفلوں کو سنانے سے کیا ملا


ان کا ہر ایک حرف ہے دل پر لکھا ہوا
اس دوست کے خطوں کو جلانے سے کیا ملا


سوچو ذرا کہ تم نے زمانے کو کیا دیا
کیوں سوچتے ہو تم کو زمانے سے کیا ملا