آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے
آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے اب آ بھی چکو وقت مسیحائی تو اب ہے پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے طاری ہے تمناؤں پہ سکرات کا عالم ہر سانس رفاقت کی تمنائی تو اب ہے کل تک مری وحشت سے فقط تم ہی تھے آگاہ ہر گام پہ اندیشۂ رسوائی تو اب ...