اعتبار ساجد کی غزل

    آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے

    آنکھوں سے عیاں زخم کی گہرائی تو اب ہے اب آ بھی چکو وقت مسیحائی تو اب ہے پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے طاری ہے تمناؤں پہ سکرات کا عالم ہر سانس رفاقت کی تمنائی تو اب ہے کل تک مری وحشت سے فقط تم ہی تھے آگاہ ہر گام پہ اندیشۂ رسوائی تو اب ...

    مزید پڑھیے

    چھوٹے چھوٹے سے مفادات لیے پھرتے ہیں

    چھوٹے چھوٹے سے مفادات لیے پھرتے ہیں در بدر خود کو جو دن رات لیے پھرتے ہیں اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر ہاتھ میں کاسۂ خیرات لیے پھرتے ہیں شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا کچھ سلگتے ہوئے نغمات لیے پھرتے ہیں مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ...

    مزید پڑھیے

    بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی

    بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی دیئے بجھا کے سر شام سو گیا تھا وہ بتائی سو کے شب ماہتاب میں نے بھی یہی نہیں کہ مجھے اس نے درد ہجر دیا جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے دل کے طاق پر جلا کے رکھ دیا ہمیں

    کسی نے دل کے طاق پر جلا کے رکھ دیا ہمیں مگر ہوائے ہجر نے بجھا کے رکھ دیا ہمیں ہزار ہم نے ضبط سے لیا تھا کام کیا کریں کسی کے آنسوؤں نے پھر رلا کے رکھ دیا ہمیں ہماری شہرتیں خراب اس طرح بھی اس نے کیں کہ اپنے آشناؤں سے ملا کے رکھ دیا ہمیں ہمیں اس انجمن میں جانے اس نے کیوں بلا لیا بلا ...

    مزید پڑھیے

    ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا

    ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا یہی عمر تھی مرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا میں سمجھ رہا ہوں تری کسک ترا میرا درد ہے مشترک اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا فقط ایک دھن تھی کہ رات دن اسی خواب زار میں گم رہیں وہ سرور ایسا سرور تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا

    مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا اکیلے پن کا یہ احساس مجھ کو مار ڈالے گا کسی کو کیا پڑی ہے میری خاطر خود کو زحمت دے پریشاں ہیں سبھی کیسے کوئی مجھ کو سنبھالے گا ابھی تاریخ نامی ایک جادوگر کو آنا ہے جو زندہ شہر اور اجسام کو پتھر میں ڈھالے گا بس اگلے موڑ پر منزل تری آنے ہی ...

    مزید پڑھیے

    کہا تخلیق فن بولے بہت دشوار تو ہوگی

    کہا تخلیق فن بولے بہت دشوار تو ہوگی کہا مخلوق بولے باعث آزار تو ہوگی کہا: ہم کیا کریں اس عہد نا پرساں میں کچھ کہیے وہ بولے کوئی آخر صورت اظہار تو ہوگی کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے وہ بولے ہر قدم پر اک نئی دیوار تو ہوگی کہا: آنکھیں نہیں اس غم میں بینائی بھی جاتی ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا

    آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں اس خبر پر ہم نے بھی گلدان ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے

    کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ہے تو کیوں ہے تجھے کھو کے سوچتا ہوں مرے دامن طلب میں کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے میں اجڑ کے بھی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے

    طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے میں تیرے جسم میں کچھ اس طرح سما جاؤں کہ تیرا لمس مری روح میں اتر جائے مثال برگ خزاں ہے ہوا کی زد پہ یہ دل نہ جانے شاخ سے بچھڑے تو پھر کدھر جائے میں یوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5