اعتبار ساجد کی غزل

    کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں

    کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں وضاحتیں ہیں قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے ہواؤں جیسی محبتیں ہیں صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے کوئی مری چاہتوں کا دشمن کسی کو درکار ...

    مزید پڑھیے

    یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم

    یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم کسی دہلیز پر آنکھوں کے یہ روشن دیئے رکھ کر ضمیر صبح کو جھنجھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم جدھر ہم جا رہے ہیں اس طرف ٹوٹا ہوا پل ہے یہ باگیں اس سے پہلے موڑ دینا چاہتے ہیں ہم یہ نوبت کل جو آنی ہے تو شرمندہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے

    کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے یہاں کیا ہم سا کوئی بے سر و سامان رہتا ہے در و دیوار سناٹے کی چادر میں ہیں خوابیدہ بھلا ایسی جگہ زندہ کوئی انسان رہتا ہے مسلسل پوچھنے پر ایک چلمن سے جواب آیا یہاں اک دل شکستہ صاحب دیوان رہتا ہے جھجک کر میں نے پوچھا کیا کبھی باہر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں

    مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں جو سراب ہوں نہ عذاب ہوں وہ رفاقتیں مجھے چاہئیں انہیں ساعتوں کی تلاش ہے جو کیلنڈروں سے اتر گئیں جو سمے کے ساتھ گزر گئیں وہی فرصتیں مجھے چاہئیں کہیں مل سکیں تو سمیٹ لا مرے روز و شب کی کہانیاں جو غبار وقت میں چھپ گئیں وہ حکایتیں مجھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا

    وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا کہ اب تو شوق راحت وصال ہی نہیں رہا تمام حسرتیں ہر اک سوال دفن کر چکے ہمارے پاس اب کوئی سوال ہی نہیں رہا تلاش رزق میں یہ شام اس طرح گزر گئی کوئی ہے اپنا منتظر خیال ہی نہیں رہا ان آتےجاتے روز و شب کی گردشوں کودیکھ کر کسی کے ہجر کا کوئی ملال ہی ...

    مزید پڑھیے

    تری رحمتوں کے دیار میں ترے بادلوں کو پتا نہیں

    تری رحمتوں کے دیار میں ترے بادلوں کو پتا نہیں ابھی آگ سرد ہوئی نہیں ابھی اک الاؤ جلا نہیں مری بزم دل تو اجڑ چکی مرا فرش جاں تو سمٹ چکا سبھی جا چکے مرے ہم نشیں مگر ایک شخص گیا نہیں در و بام سب نے سجا لیے سبھی روشنی میں نہا لیے مری انگلیاں بھی جھلس گئیں مگر اک چراغ جلا نہیں غم ...

    مزید پڑھیے

    کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا

    کیسے کہیں کہ جان سے پیارا نہیں رہا یہ اور بات اب وہ ہمارا نہیں رہا آنسو ترے بھی خشک ہوئے اور میرے بھی نم اب کسی ندی کا کنارا نہیں رہا کچھ دن تمہارے لوٹ کے آنے کی آس تھی اب اس امید کا بھی سہارا نہیں رہا رستے مہہ‌ و نجوم کے تبدیل ہو گئے ان کھڑکیوں میں ایک بھی تارا نہیں رہا سمجھے ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا

    زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا نقش دیے تری آشاؤں کو عکس دیے ترے سپنوں کو لیکن دیکھ ہماری حالت وقت نے کیا تاوان لیا اشکوں میں ہم گوندھ چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا برسوں بعد ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    ترک تعلق کر تو چکے ہیں اک امکان ابھی باقی ہے

    ترک تعلق کر تو چکے ہیں اک امکان ابھی باقی ہے ایک محاذ سے لوٹ آئے ہیں اک میدان ابھی باقی ہے شاید اس نے ہنسی ہنسی میں ترک وفا کا ذکر کیا ہو یونہی سی اک خوش فہمی ہے اطمینان ابھی باقی ہے راتیں اس کے ہجر میں اب بھی نزع کے عالم میں کٹتی ہیں دل میں ویسی ہی وحشت ہے تن میں جان ابھی باقی ...

    مزید پڑھیے

    مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے

    مرا ہے کون دشمن میری چاہت کون رکھتا ہے اسی پر سوچتے رہنے کی فرصت کون رکھتا ہے مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے نہیں ہے نرخ کوئی میرے ان اشعار تازہ کا یہ میرے خواب ہیں خوابوں کی قیمت کون رکھتا ہے در خیمہ کھلا رکھا ہے گل کر کے دیا ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5