اعتبار ساجد کی غزل

    رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

    رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے پھر ہجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا ہر شام جلد سونے کی عادت ہی پڑ گئی ہر رات ایک خواب ضروری سا ہو گیا آہوں سے ٹوٹتا ...

    مزید پڑھیے

    محتاج ہم سفر کی مسافت نہ تھی مری

    محتاج ہم سفر کی مسافت نہ تھی مری سب ساتھ تھے کسی سے رفاقت نہ تھی مری حق کس سے مانگتا کہ مکینوں کے ساتھ ساتھ دیوار و بام و در کو ضرورت نہ تھی مری سچ بول کے بھی دیکھ لیا ان کے سامنے لیکن انہیں پسند صداقت نہ تھی مری میں جن پہ مر مٹا تھا وہ کاغذ کے پھول تھے رسمی مکالمے تھے محبت نہ تھی ...

    مزید پڑھیے

    دھڑکن دھڑکن یادوں کی بارات اکیلا کمرہ

    دھڑکن دھڑکن یادوں کی بارات اکیلا کمرہ میں اور میرے زخمی احساسات اکیلا کمرہ گئے دنوں کی تصویروں کے بجھتے ہوئے نقوش تازہ ترک تعلق کے صدمات اکیلا کمرہ دوش ہوا پر اڑنے والے خزاں کے آخری پتے اپنی اکیلی جان غم حالات اکیلا کمرہ آخری شب کے چاند سے کرنا بالکنی میں باتیں اس کے شہر میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ گمان موت کا ہے نہ خیال زندگی کا

    نہ گمان موت کا ہے نہ خیال زندگی کا سو یہ حال ان دنوں ہے مرے دل کی بے کسی کا میں شکستہ بام و در میں جسے جا کے ڈھونڈتا تھا کوئی یاد تھی کسی کی کوئی نام تھا کسی کا میں ہواؤں سے ہراساں وہ گھٹن سے دل گرفتہ میں چراغ تیرگی کا وہ گلاب روشنی کا ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں کہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں خیال ذات ہے شعور ذات ہی نہیں

    تمہیں خیال ذات ہے شعور ذات ہی نہیں خطا معاف یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں ہمارے سامنے فقط ہماری ذات ہی نہیں ورق ورق پہ ڈائری میں آنسوؤں کا نم بھی ہے یہ صرف بارشوں سے بھیگے ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی

    پھولوں میں وہ خوشبو وہ صباحت نہیں آئی اب تک ترے آنے کی شہادت نہیں آئی موسم تھا نمائش کا مگر آنکھ نہ کھولی جاناں ترے زخموں کو سیاست نہیں آئی جو روح سے آزار کی مانند لپٹ جائے ہم پر وہ گھڑی اے شب وحشت نہیں آئی اے دشت انا الحق ترے قربان ابھی تک وہ منزل اظہار صداقت نہیں آئی ہم لوگ ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

    پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے شام کریں کیسے اس دن کی ٹھنڈی صورت دیکھیں کن کی ادھر ادھر تو دھواں اڑاتی آگ اگلتی خلقت ہے جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے پھول ببول کے اچھے ...

    مزید پڑھیے

    شہر ہوا میں جلتے رہنا اندیشوں کی چوکھٹ پر (ردیف .. ن)

    شہر ہوا میں جلتے رہنا اندیشوں کی چوکھٹ پر رات گئے تک الجھے رہنا بے مفہوم خیالوں میں قصر عمر گواہی دے گا کیسے کیسے کرب سہے کیسی کیسی رت گزری ہے ہم پر اتنے سالوں میں دوش خلا سے خاک زمیں پر اترے تو احساس ہوا تارے بانٹنے والے راہی پڑ گئے کن جنجالوں میں لے آئی کس قریۂ شب میں اک ...

    مزید پڑھیے

    بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں

    بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں تو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ دونوں اس دکھ سے ہیں دو چار کہیں اور چلیں ڈھونڈتے ہیں کوئی سر سبز کشادہ سی فضا وقت کی دھند کے اس ...

    مزید پڑھیے

    جانے کس چاہ کے کس پیار کے گن گاتے ہو

    جانے کس چاہ کے کس پیار کے گن گاتے ہو رات دن کون سے دل دار کے گن گاتے ہو یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو اپنی تنہائی پہ نازاں ہو مرے سادہ مزاج اپنے سونے در و دیوار کے گن گاتے ہو اپنے ہی ذہن کی تخلیق پہ اتنے سرشار اپنے افسانوی کردار کے گن گاتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5