اعتبار ساجد کی نظم

    فتح کا غم

    اولیں شہر کی تسخیر میں پہلو تھے بہت رنج کے خوف کے حیرت کے شکیبائی کے پھر یہ دیکھا کہ تن و جاں کے اثاثے کے عوض مٹی ہم جس پہ قدم رکھتے ہیں جس کی ٹھوڑی پہ لہو رنگ علم رکھتے ہیں اس کی ممتا کی حرارت سے الگ چیز نہیں جس میں ہم اپنا نسب اپنا جنم رکھتے ہیں اپنے ہونے کا بھرم رکھتے ہیں

    مزید پڑھیے

    کشٹ

    کیسے چلتے سمے وہ روئی گلے سے لگ کر بلک بلک کر پھر آنکھوں کو چومنا اس کا اچک اچک کر دور ہٹنا اور دیکھنا مجھ کو ٹھٹک ٹھٹک کر گر پڑنا پھر کھلی ہوئی بانہوں میں تھک کر شام جدائی ماں سے محبوبہ تک کتنے روپ تھے اس کے

    مزید پڑھیے