اعتبار ساجد کے تمام مواد

46 غزل (Ghazal)

    کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں

    کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکایتیں ہیں ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں وضاحتیں ہیں قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے ہواؤں جیسی محبتیں ہیں صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے کوئی مری چاہتوں کا دشمن کسی کو درکار ...

    مزید پڑھیے

    یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم

    یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم کسی دہلیز پر آنکھوں کے یہ روشن دیئے رکھ کر ضمیر صبح کو جھنجھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم جدھر ہم جا رہے ہیں اس طرف ٹوٹا ہوا پل ہے یہ باگیں اس سے پہلے موڑ دینا چاہتے ہیں ہم یہ نوبت کل جو آنی ہے تو شرمندہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے

    کہا دن کو بھی یہ گھر کس لیے ویران رہتا ہے یہاں کیا ہم سا کوئی بے سر و سامان رہتا ہے در و دیوار سناٹے کی چادر میں ہیں خوابیدہ بھلا ایسی جگہ زندہ کوئی انسان رہتا ہے مسلسل پوچھنے پر ایک چلمن سے جواب آیا یہاں اک دل شکستہ صاحب دیوان رہتا ہے جھجک کر میں نے پوچھا کیا کبھی باہر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں

    مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں جو سراب ہوں نہ عذاب ہوں وہ رفاقتیں مجھے چاہئیں انہیں ساعتوں کی تلاش ہے جو کیلنڈروں سے اتر گئیں جو سمے کے ساتھ گزر گئیں وہی فرصتیں مجھے چاہئیں کہیں مل سکیں تو سمیٹ لا مرے روز و شب کی کہانیاں جو غبار وقت میں چھپ گئیں وہ حکایتیں مجھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا

    وہ پہلی جیسی وحشتیں وہ حال ہی نہیں رہا کہ اب تو شوق راحت وصال ہی نہیں رہا تمام حسرتیں ہر اک سوال دفن کر چکے ہمارے پاس اب کوئی سوال ہی نہیں رہا تلاش رزق میں یہ شام اس طرح گزر گئی کوئی ہے اپنا منتظر خیال ہی نہیں رہا ان آتےجاتے روز و شب کی گردشوں کودیکھ کر کسی کے ہجر کا کوئی ملال ہی ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    فتح کا غم

    اولیں شہر کی تسخیر میں پہلو تھے بہت رنج کے خوف کے حیرت کے شکیبائی کے پھر یہ دیکھا کہ تن و جاں کے اثاثے کے عوض مٹی ہم جس پہ قدم رکھتے ہیں جس کی ٹھوڑی پہ لہو رنگ علم رکھتے ہیں اس کی ممتا کی حرارت سے الگ چیز نہیں جس میں ہم اپنا نسب اپنا جنم رکھتے ہیں اپنے ہونے کا بھرم رکھتے ہیں

    مزید پڑھیے

    کشٹ

    کیسے چلتے سمے وہ روئی گلے سے لگ کر بلک بلک کر پھر آنکھوں کو چومنا اس کا اچک اچک کر دور ہٹنا اور دیکھنا مجھ کو ٹھٹک ٹھٹک کر گر پڑنا پھر کھلی ہوئی بانہوں میں تھک کر شام جدائی ماں سے محبوبہ تک کتنے روپ تھے اس کے

    مزید پڑھیے