Ahmad Iftikhar khatak

احمد افتخار خٹک

  • 1991

احمد افتخار خٹک کی غزل

    یہ وسعت و امکان کی حد ہے مرے نزدیک

    یہ وسعت و امکان کی حد ہے مرے نزدیک وہ خود ہی ازل خود ہی ابد ہے مرے نزدیک اس وقت فلک زینے سے بڑھ کر نہیں مجھ کو اس وقت ترا قامت و قد ہے مرے نزدیک چپ ہوں کہ مرا خواب ہے ادراک سے باہر خوش ہوں کہ مری آنکھ سند ہے مرے نزدیک دریوزہ گر عشق ہوں کاسہ ہے مری جاں ہر لمحہ مری ذات کا رد ہے مرے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں کے بارے میں کیا کے بارے میں

    کیوں کے بارے میں کیا کے بارے میں عقل چپ ہے خدا کے بارے میں جب صعوبت میں سانس گھٹنے لگے سوچیے کربلا کے بارے میں سب کو تفتیش ہو رہی ہوگی دوسرے نقش پا کے بارے میں خامشی سادھ لی گئی یک دم سخن نارسا کے بارے میں انتہا ہو چکی محبت کی کچھ کہو ابتدا کے بارے میں میری اپنی ہی ایک رائے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے مل کر یقیں ہوا ہے مجھے

    تجھ سے مل کر یقیں ہوا ہے مجھے عشق اب تک نہیں ہوا ہے مجھے خاک ہی خاک ہے جہاں دیکھوں آسماں بھی زمیں ہوا ہے مجھے خون آنکھوں سے کیوں نہیں ٹپکا درد دل کے قریں ہوا ہے مجھے نقص لاتا ہے سامنے میرے آئنہ نکتہ چیں ہوا ہے مجھے یہ جو احساس زندگی ہے یہ شاعری کے تئیں ہوا ہے مجھے میں کڑی دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    میرے ماتھے پہ لکھو بخت سے ہارا ہوا ہے

    میرے ماتھے پہ لکھو بخت سے ہارا ہوا ہے اک زبردست زبردست سے ہارا ہوا ہے ہارتے ہارتے سب ہار گیا عشق میں میں سب سمجھتے ہیں مگر دشت سے ہارا ہوا ہے دیکھنا چاہتا ہے پیڑ پہ پھلتے ہوئے پھول ایک پتا جو ترے تخت سے ہارا ہوا ہے اب جو ہجراں میں مجھے دیتا ہے تاویلیں بہت ذہن وہ جو دل کم بخت سے ...

    مزید پڑھیے

    فائدہ ہے یا خسارہ ہم کو سب معلوم ہے

    فائدہ ہے یا خسارہ ہم کو سب معلوم ہے کیوں کریں ہم استخارہ ہم کو سب معلوم ہے لوگ کیوں خود کو بتاتے ہیں ہمارا خیر خواہ کون ہے کتنا ہمارا ہم کو سب معلوم ہے کس کے گھر میں تیرگی کا راج تھا کل رات کو چاند کس کے گھر اتارا ہم کو سب معلوم ہے زندگی ہے نام جس کا زندگی ہرگز نہیں کر رہے ہیں سب ...

    مزید پڑھیے

    بدن کے دشت کو آباد کیوں نہیں کرتے

    بدن کے دشت کو آباد کیوں نہیں کرتے ہوس بھی ہے تو کچھ ایجاد کیوں نہیں کرتے ہر اک خیال کو باندھا ہوا ہے لفظوں سے نہ جانے تم انہیں آزاد کیوں نہیں کرتے جلاتے کیوں نہیں اس قبر پر چراغ کوئی مرا خیال مرے بعد کیوں نہیں کرتے اگر ملا ہے تمہیں درد تو بتاؤ ہمیں کراہتے نہیں فریاد کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خواب تو کھلتے تھے مجھ پر در کوئی کھلتا نہ تھا

    خواب تو کھلتے تھے مجھ پر در کوئی کھلتا نہ تھا آسماں سب کھل چکے تھے پر کوئی کھلتا نہ تھا سامنے سے سارے منظر صاف دکھتے تھے مگر ایک منظر ایسا کہ اندر کوئی کھلتا نہ تھا جانے کیسے شہر میں اپنے قدم پڑنے لگے بند دل کے لوگ تھے کھل کر کوئی کھلتا نہ تھا گو مگو کے دن تھے وہ مسجد کوئی چلتی ...

    مزید پڑھیے

    مرا وجود ہی جب خار و خس کے اندر تھا

    مرا وجود ہی جب خار و خس کے اندر تھا میں اس سمے بھی تری دسترس کے اندر تھا میں دیکھتا تھا برابر عمل کا رد عمل دبی ہوئی تھی سڑک شور بس کے اندر تھا مجھے سمجھتے تھے کچھ لوگ برگزیدہ شجر ہوس پرست نہیں تھا ہوس کے اندر تھا میں کس طرح سے محبت کی بات کر پاتا وہ خوش مزاج پرندہ قفس کے اندر ...

    مزید پڑھیے

    منظر کے ساتھ ساتھ بدلنے لگا ہوں میں

    منظر کے ساتھ ساتھ بدلنے لگا ہوں میں روشن ہوئے چراغ تو جلنے لگا ہوں میں پو پھوٹنے میں وقت ہے جانا ہے مجھ کو دور سورج سے پہلے گھر سے نکلنے لگا ہوں میں حیرت نے میری آنکھ میں اک خواب رکھ دیا چشم ستارہ ساز میں کھلنے لگا ہوں میں میرا کمال دیکھیے اس دھوپ دشت میں اک آئنے کا جسم اجلنے ...

    مزید پڑھیے

    مرا ہم سفر کبھی وہم تھا کبھی خواب تھا کبھی کیا رہا

    مرا ہم سفر کبھی وہم تھا کبھی خواب تھا کبھی کیا رہا میں عجیب حال میں مست تھا سو مرا مذاق بنا رہا مری مشکلوں نے عیاں کیا مرا یار دوست کوئی نہیں سو قبیل حرص و ہواس میں میں اکیلا ڈٹ کے کھڑا رہا مرے آشیاں کو جلا گئیں مرے خام سوچ کی حدتیں مرا سر حیا سے نہ اٹھ سکا میں ندامتوں میں پڑا ...

    مزید پڑھیے