بدن کے دشت کو آباد کیوں نہیں کرتے

بدن کے دشت کو آباد کیوں نہیں کرتے
ہوس بھی ہے تو کچھ ایجاد کیوں نہیں کرتے


ہر اک خیال کو باندھا ہوا ہے لفظوں سے
نہ جانے تم انہیں آزاد کیوں نہیں کرتے


جلاتے کیوں نہیں اس قبر پر چراغ کوئی
مرا خیال مرے بعد کیوں نہیں کرتے


اگر ملا ہے تمہیں درد تو بتاؤ ہمیں
کراہتے نہیں فریاد کیوں نہیں کرتے


تمام لوگ ازل سے ہیں گوش بر آواز
خموش رہتے ہو ارشاد کیوں نہیں کرتے


یہ جبر ناروا اپنی سمجھ سے ہے باہر
جو یاد آئے اسے یاد کیوں نہیں کرتے


برا ہی کیا ہے محبت میں رات دن احمدؔ
سلگ کے یاد کی امداد کیوں نہیں کرتے