خواب تو کھلتے تھے مجھ پر در کوئی کھلتا نہ تھا

خواب تو کھلتے تھے مجھ پر در کوئی کھلتا نہ تھا
آسماں سب کھل چکے تھے پر کوئی کھلتا نہ تھا


سامنے سے سارے منظر صاف دکھتے تھے مگر
ایک منظر ایسا کہ اندر کوئی کھلتا نہ تھا


جانے کیسے شہر میں اپنے قدم پڑنے لگے
بند دل کے لوگ تھے کھل کر کوئی کھلتا نہ تھا


گو مگو کے دن تھے وہ مسجد کوئی چلتی نہ تھی
خوف کی دیوی کا ڈر مندر کوئی کھلتا نہ تھا


اب جدھر سے بھی میں گزروں دیکھتے ہیں مجھ کو لوگ
مجھ پہ ایسے دن بھی گزرے در کوئی کھلتا نہ تھا


دیکھتا رہتا تھا شب بھر آسمانوں کی طرف
دیدۂ خوں بار سے منظر کوئی کھلتا نہ تھا


مل ہی جانا تھا مجھے اپنے لہو کا بھی سراغ
بد نصیبی تھی مری خنجر کوئی کھلتا نہ تھا


خواب دیکھا آرزوئے شہر میں وہ افتخارؔ
سب گزرتے تھے مگر مجھ پر کوئی کھلتا نہ تھا