Aditya Shrivastava Shafaq

ادتیہ شری واستو شفق

  • 1999

ادتیہ شری واستو شفق کی غزل

    ہمیں ان سے محبت ہے ضرورت سے زیادا ہی

    ہمیں ان سے محبت ہے ضرورت سے زیادا ہی انہیں ہم سے شکایت ہے ضرورت سے زیادہ ہی ستارے رشک کرتے ہیں نظارے رشک کرتے ہیں مری جاں خوب صورت ہے ضرورت سے زیادہ ہی ملا ہے ہم نوا ایسا جو میرا ہم زباں بھی ہے پسند اس کو بھی ثروتؔ ہے ضرورت سے زیادہ ہی فرشتوں کو سناؤں گا میں برگ گل کے ...

    مزید پڑھیے

    بھول بیٹھے ساری دنیا عاشقی کی خاطر

    بھول بیٹھے ساری دنیا عاشقی کی خاطر عاشقی بھی چھوڑ دی پھر نوکری کی خاطر مار ڈالا ہر خوشی کو خامشی کی خاطر کیا نہیں اس نے کیا میری ہنسی کی خاطر مفلسی ایسی عدو کو بھی نہ بخشے مولیٰ بیچنا ہو جو چراغاں روشنی کی خاطر جانے کتنے لوگ گزرے مجھ سے ہو کر بھائی منتظر میں رہ گیا اک آدمی کی ...

    مزید پڑھیے

    مٹی ہستی ہماری بد گمانی میں

    مٹی ہستی ہماری بد گمانی میں مرے تھے پیاس سے دریا کے پانی میں کہانی خود کشی پہ ہو گئی مجبور کوئی کردار تھا ایسا کہانی میں ہے ممکن داد دیتے آپ رو بھی دے فنا شاعر ہوا مطلع کے ثانی میں مرا ارماں جو ٹوٹا تو لگا جیسے کسی کا بیٹا دم توڑے جوانی میں شفقؔ کے شعر پڑھنا جو ملے فرصت ملے گا ...

    مزید پڑھیے

    جاتے جاتے یہ تکلف بھی نبھاتے جائیے

    جاتے جاتے یہ تکلف بھی نبھاتے جائیے عشق کے ظلم و ستم سارے بھلاتے جائیے مفلسوں کو اک زباں اس کے لیے دے دی گئی صاحبوں کی ہاں میں بس ہاں ہاں ملاتے جائیے راہ بربادی پہ جانا ہے تو جائیں شوق سے ہاں مگر اپنے یہ نقش پا مٹاتے جائیے سرحدیں ہو ختم ساری ختم ہو سب بھید بھاؤ خوں سے میرے ایسا ...

    مزید پڑھیے

    جب جہاں میں پیٹ سب کا ہی ہے بھرتی روٹی

    جب جہاں میں پیٹ سب کا ہی ہے بھرتی روٹی منہ چڑھاتی روز و شب پھر کیوں مرا ہی روٹی روز چولھے میں جلاتا ہے جو خود داری کو بھوک پھر اس کی مٹائے کیسے اس کی روٹی عمر اتنی تھی کہ روٹی ماں کے ہاتھوں کھاتا مجھ کو تو اس عمر میں کھانے لگی تھی روٹی ناچتی ہے بھوک جب بھی چار دن آنگن میں تب لہو ...

    مزید پڑھیے