مٹی ہستی ہماری بد گمانی میں
مٹی ہستی ہماری بد گمانی میں
مرے تھے پیاس سے دریا کے پانی میں
کہانی خود کشی پہ ہو گئی مجبور
کوئی کردار تھا ایسا کہانی میں
ہے ممکن داد دیتے آپ رو بھی دے
فنا شاعر ہوا مطلع کے ثانی میں
مرا ارماں جو ٹوٹا تو لگا جیسے
کسی کا بیٹا دم توڑے جوانی میں
شفقؔ کے شعر پڑھنا جو ملے فرصت
ملے گا فلسفہ تم کو معانی میں