جب جہاں میں پیٹ سب کا ہی ہے بھرتی روٹی

جب جہاں میں پیٹ سب کا ہی ہے بھرتی روٹی
منہ چڑھاتی روز و شب پھر کیوں مرا ہی روٹی


روز چولھے میں جلاتا ہے جو خود داری کو
بھوک پھر اس کی مٹائے کیسے اس کی روٹی


عمر اتنی تھی کہ روٹی ماں کے ہاتھوں کھاتا
مجھ کو تو اس عمر میں کھانے لگی تھی روٹی


ناچتی ہے بھوک جب بھی چار دن آنگن میں
تب لہو کی میرے قیمت صرف لگتی روٹی


جس نے اوروں کے خزانے زندگی بھر تھے بھرے
مرتے مرتے وہ بھی چلایا تھا روٹی روٹی


خون اس کا کھیت میں بہتا ہے جیسے پانی
بنتی ہے جس کے پسینے سے سبھی کی روٹی


لوگ تو کرتے ہیں ایماں کا بھی سودا اکثر
داؤں پہ لگتی ہے جب ان کی یہ پیاری روٹی


دور غربت میں بھی کرتا ہے شفقؔ یہ دعویٰ
مر بھی جائے تو نہ کھائے شاعری کی روٹی