ہمیں ان سے محبت ہے ضرورت سے زیادا ہی
ہمیں ان سے محبت ہے ضرورت سے زیادا ہی
انہیں ہم سے شکایت ہے ضرورت سے زیادہ ہی
ستارے رشک کرتے ہیں نظارے رشک کرتے ہیں
مری جاں خوب صورت ہے ضرورت سے زیادہ ہی
ملا ہے ہم نوا ایسا جو میرا ہم زباں بھی ہے
پسند اس کو بھی ثروتؔ ہے ضرورت سے زیادہ ہی
فرشتوں کو سناؤں گا میں برگ گل کے افسانے
کہانی میں صداقت ہے ضرورت سے زیادہ ہی
خلاؤں میں چلا جاتا ہوں اکثر گھومنے کو میں
زمیں پر پھیلی نفرت ہے ضرورت سے زیادہ ہی
وراثت میں بھلا لے گی بھی کیا نسل فر و مایہ
غزل میں بھی سیاست ہے ضرورت سے زیادہ ہی
غزل سپنے میں کہنے آئی تھی کل بات یہ مجھ سے
مجھے تیری ضرورت ہے ضرورت سے زیادہ ہی
نکیر و منکر و رضواں سنیں گے شعر اب میرے
شفقؔ کی ان کو چاہت ہے ضرورت سے زیادہ ہی