جاتے جاتے یہ تکلف بھی نبھاتے جائیے

جاتے جاتے یہ تکلف بھی نبھاتے جائیے
عشق کے ظلم و ستم سارے بھلاتے جائیے


مفلسوں کو اک زباں اس کے لیے دے دی گئی
صاحبوں کی ہاں میں بس ہاں ہاں ملاتے جائیے


راہ بربادی پہ جانا ہے تو جائیں شوق سے
ہاں مگر اپنے یہ نقش پا مٹاتے جائیے


سرحدیں ہو ختم ساری ختم ہو سب بھید بھاؤ
خوں سے میرے ایسا اک نقشہ بناتے جائیے


گفتگو کرنی ہے سنجیدہ شفقؔ سے آپ کو
شعر کہئے اور ٹھہاکے بھی لگاتے جائیے