بھول بیٹھے ساری دنیا عاشقی کی خاطر
بھول بیٹھے ساری دنیا عاشقی کی خاطر
عاشقی بھی چھوڑ دی پھر نوکری کی خاطر
مار ڈالا ہر خوشی کو خامشی کی خاطر
کیا نہیں اس نے کیا میری ہنسی کی خاطر
مفلسی ایسی عدو کو بھی نہ بخشے مولیٰ
بیچنا ہو جو چراغاں روشنی کی خاطر
جانے کتنے لوگ گزرے مجھ سے ہو کر بھائی
منتظر میں رہ گیا اک آدمی کی خاطر
زندگی کو زندگی سمجھا نہیں جانے کیوں
زندگی بھی جا رہی تھی زندگی کی خاطر
قید کرنا چاہتے تھے لوگ سورج گھر میں
میں لڑا کیوں روشنی سے تیرگی کی خاطر
زیست کو بھی اک تماشہ ہی بنا کر رکھا
اے شفقؔ کیا تم نے چھوڑا شاعری کی خاطر