Adil Mansuri

عادل منصوری

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنے خطاط اور ڈرامہ نگاربھی

One of the leading modernist poets who broke many conventions. Wrote poetry in Urdu and Gujarati. He was also a famous calligrapher and playwright

عادل منصوری کی نظم

    ستارہ سو گیا ہے

    جسم کو خواہش کی دیمک کھا رہی ہے نیم وحشی لذتوں کی ٹوٹتی پرچھائیاں آرزو کی آہنی دیوار سے ٹکرا رہی ہیں درد کے دریا کنارے اجنبی یادوں کی جل پریوں کا میلہ سا لگا ہے ان گنت پگھلے ہوئے رنگوں کی چادر تن گئی ہے پربتوں کی چوٹیوں سے ریشمی خوشبو کی کرنیں پھوٹتی ہیں خواب کی دہلیز سونی ہو ...

    مزید پڑھیے

    چل نکلو

    راہ نہ دیکھو سورج کی کل میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی لاش جلائی ہے صبح نہ ہوگی اور نہ اجالا پھیلے گا رات ہمیشہ رات رہے گی رات کی تاریکی کو غنیمت جان کے نکلو چل نکلو اپنے شکستہ خواب کے ٹکڑے ساتھ میں لے کر چل نکلو راہ نہ دیکھو سورج کی

    مزید پڑھیے

    عینک کے شیشے پر

    عینک کے شیشے پر سرکتی چیونٹی آگے کے پاؤں اوپر ہوا میں اٹھا کر پچھلے پاؤں پر کھڑی ہنہناتی ہے گھوڑے کی طرح عینک کے نیچے دبے اخبار میں دو ہوائی جہاز ٹکرا جاتے ہیں مسافروں سے لدی اک کشتی الٹ جاتی ہے ایک بس کھائی میں گر پڑتی ہے پانچ بوڑھے فقیر سردی سے مر جاتے ہیں کوئلہ کان میں پانی بھر ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی

    وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے دیواروں کا چونا چاٹتی رہتی ہے خاموشی کے صحراؤں میں اس کے گھر مرے ہوئے سورج ہیں اس کی چھاتی پر اس کے بدن کو چھو کر لمحے سال بنے سال کئی صدیوں میں پورے ہوتے ہیں وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے

    مزید پڑھیے

    کھڑکی اندھی ہو چکی ہے

    کھڑکی اندھی ہو چکی ہے دھول کی چادر میں اپنا منہ چھپائے کالی سڑکیں سو چکی ہیں دھوپ کی ننگی چڑیلوں کے سلگتے قہقہوں سے جا بجا پیڑوں کے سائے جل رہے ہیں میز پر گلدان میں ہنستے ہوئے پھولوں سے میٹھے لمس کی خوشبو کا جھرنا بہہ رہا ہے ایک سایہ آئینے کے کان میں کچھ کہہ رہا ہے عہد رفتہ کی ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    خوں پتھر پہ سرک آیا گہرا نیلا رنگ ہوا میں ڈوب گیا جل کنیا کے جسم پہ کالے سانپ کا سایہ لہرایا دریا دریا زہر چڑھا گیلی ریت پہ دھوپ نے اپنا نام لکھا مٹھی میں مچھلی کا آنسو سوکھ گیا گھوڑوں کی ٹاپوں سے کمرہ گونج اٹھا خرگوشوں کی آنکھوں سے سورج نکلے پھر دریا کی ناف میں کشتی ڈوب گئی کاغذ ...

    مزید پڑھیے

    والد کے انتقال پر

    وہ چالیس راتوں سے سویا نہ تھا وہ خوابوں کو اونٹوں پہ لادے ہوئے رات کے ریگزاروں میں چلتا رہا چاندنی کی چتاؤں میں جلتا رہا میز پر کانچ کے اک پیالے میں رکھے ہوئے دانت ہنستے رہے کالی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے پھر موتیے کی کلی سر اٹھانے لگی آنکھ میں تیرگی مسکرانے لگی روح کا ہاتھ چھلنی ...

    مزید پڑھیے

    لفظ کی چھاؤں میں

    لفظ کی چھاؤں میں نیم کی پتیوں کا سفر تلخ سا سیلنی جسم میں روح بے چین بھی شہریت کے تقاضے جو ٹوٹے کبھی زندگی کے عمل میں بھی شک آ پڑا ٹوٹ کر کس طرح جڑ گئی چاندنی دھوپ لمحوں کے چہروں سے گرتی ہوئی خاک میں جا ملی سر جھکائے ہوئے کون سڑکوں پہ یوں تجھ کو ڈھونڈا کرے ہم کلامی کی عزت کا بادل ...

    مزید پڑھیے

    لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو

    لہو کو سرخ گلابوں میں بند رہنے دو شکستہ خواب کے شیشوں پہ اس کا عکس پڑے سیاہ مٹی کے نیچے سفید بال جلے کسی کے دانت مری انگلیاں چبا جائیں خلا کے زینے سے پرچھائیاں اترنے لگیں ہر ایک لمحے کے چہرے پہ دھوپ مرنے لگے اداس وقت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلوں بزرگ باپ کے چہرے کی جھریاں ...

    مزید پڑھیے

    طلسمی غار کا دروازہ

    روز آدھی رات کو اک طلسمی غار کے خفیہ دروازے کے سینے میں جنم لیتی ہیں غیبی دھڑکنیں غار کی گہرائی میں چلتے ہوئے سنگیت کے قدموں کی چاپ رات کی اندھی ہوا کا ہاتھ پکڑے دور تک جاتی ہے ساتھ ایک زہری سانپ کھنچ آتا ہے سر کی چاہ میں لاکھ خطرے ہیں ذرا سی راہ میں بند دروازے کے پاس نرم بھینی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5