ستارہ سو گیا ہے
جسم کو خواہش کی دیمک کھا رہی ہے نیم وحشی لذتوں کی ٹوٹتی پرچھائیاں آرزو کی آہنی دیوار سے ٹکرا رہی ہیں درد کے دریا کنارے اجنبی یادوں کی جل پریوں کا میلہ سا لگا ہے ان گنت پگھلے ہوئے رنگوں کی چادر تن گئی ہے پربتوں کی چوٹیوں سے ریشمی خوشبو کی کرنیں پھوٹتی ہیں خواب کی دہلیز سونی ہو ...