Adil Mansuri

عادل منصوری

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنے خطاط اور ڈرامہ نگاربھی

One of the leading modernist poets who broke many conventions. Wrote poetry in Urdu and Gujarati. He was also a famous calligrapher and playwright

عادل منصوری کی نظم

    کیچڑ میں اٹا موسم

    پتھروں پر جمی ہوئی نظریں گاڑھا سیال لمحہ لمحہ رواں پھیلتی بو فضا میں، ناک سڑاندھ آسماں سے برس رہے مینڈک گرتے ہیں گر کے پھر سنبھلتے ہیں گاڑھے سیال میں پھدکتے ہیں اور سورج کی سرخ آنکھوں میں کائی کی پرتیں جمتی جاتی ہیں بند دروازے پر صبا دستک کوئی آتا نہ کوئی جاتا ہے بند دروازہ ...

    مزید پڑھیے

    رات اور دن کے درمیاں کوئی

    رات اور دن کے درمیاں کوئی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر نکلا چاند سورج ستارے سیارے باندھ کر سب کو اپنے بالوں میں میرے اندر اتر گیا واپس

    مزید پڑھیے

    شعور نیلی رطوبتوں میں الجھ گیا ہے

    شعور نیلی رطوبتوں میں الجھ گیا ہے خلوص کی انگلیوں کے نیچے اندھیرا لفظوں میں ڈھل گیا ہے یہاں سب الفاظ کھوکھلے ہیں یہ کھوکھلا پن مقدروں سے جڑا ہوا ہے یہ کھوکھلا پن جسے معانی کی ریت سے بھر سکے نہ کوئی مقدروں سے جڑا ہوا ہے اندھیرا گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے گونجتا ہے اندھیرا جس میں کسی کی ...

    مزید پڑھیے

    سفید رات سے منسوب ہے لہو کا زوال

    سفید رات سے منسوب ہے لہو کا زوال صبا کے شانوں پہ بکھرے سنہری دھوپ کے بال ہر ایک لفظ کے چہرے پہ مل دیا ہے ملال مٹے مٹے سے معانی بجھے بجھے سے خیال پگھلتے لمحوں کے ہاتھوں میں روشنی کا مآل خلاف کی ناف سے رہ رہ کے سر اٹھاتے سوال مرے بدن کا تجسس مرے گناہ کی ڈھال

    مزید پڑھیے

    ساتویں پسلی میں پیلی چاندنی

    ساتویں پسلی میں پیلی چاندنی اور تاروں کی اداسی کا جمود تین دن کی بھوک کا انجام کالی مسکراہٹ نرم بھینی گھاس پر پھیلی ہوئی پرچھائیاں اور گزرتے وقت کا احساس شرمایا ہوا مکڑی کے جالے کے اندر آج سورج پھنس گیا

    مزید پڑھیے

    فیض

    اب نہ زنجیر کھڑکنے کی صدا آئے گی زنداں مہکے گا نہ اب باد صبا آئے گی ایک ایک پھول کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رنگ بکھریں گے نہ کھلتا ہوا موسم کوئی خار کے سینے میں چبھتا ہوا پھر غم کوئی آندھی پھر تیز ہے تاروں کو بجھا دے نہ کہیں رات گھنگھور ہے سورج کو چھپا دے نہ کہیں اور اب شعلۂ جاں سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ سایوں کی تشنگی میں

    سیاہ سایوں کی تشنگی میں اداس لمحوں کو ساتھ رکھو شکستہ لفظوں کے ساحلوں پر سفید جھاگوں میں عکس ڈھونڈو کھنڈر کی بوسیدگی میں چھپ کر پرانی یادوں کے ہونٹ چومو خلا کے شانوں پہ ہاتھ رکھ کر سیاہئ شب کی زلف سونگھو سحر کی نازک ہوا کی اجلی کلائی پکڑو بدن کی پیلی برہنگی کو بیان کر دو

    مزید پڑھیے

    لیکن

    کالی عینک لگائے گھومتے رہنا سورج میں سڑکوں پر ہوٹلوں میں تھئیٹروں میں مسجدوں میں دکانوں میں ریلوے پلیٹ فارم پر بھٹیار گلیوں میں شامل ہونا بجھے بجھے چہروں والی بھیڑ میں تاکتے رہنا سفید دیواروں کو اکیلے لایعنی ہے سب کچھ اور جو دکھائی دیتا ہے وہ نہیں ہے پھر بھی دکھائی دیتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    اداسی کے پیلے درختوں کی شاخوں سے چپکے ہوئے سبز پتوں میں تیرا تجسس مرے جسم کی ٹوٹتی سرحدوں پر خیالوں کے سایوں کو رسوا کرے گا کنویں کے اندھیرے کی بھیگی ہوئی جامنی آنکھ کی گول چکنائی کے سرخ خوابوں کے اندر جواں لمس کے ایک جنگلی کبوتر کے پھیلے ہوئے پر افق کو چھویں گے مجھے بند کمرے میں ...

    مزید پڑھیے

    تنگ تاریک گلی میں کتا

    تنگ تاریک گلی میں کتا میلا میلا سا تھرتھراتا چاند بھینی خاموشی کسمساتی ہوئی تنگ تاریک گلی اور سائے کو نوچتا کتا

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5