Abul Hasanat Haqqi

ابو الحسنات حقی

ابو الحسنات حقی کی غزل

    تمنا کو گل و گلزار کرنا

    تمنا کو گل و گلزار کرنا مرے دشت طلب کو پار کرنا مرے مالک مجھے آسان کر دے گزر ہر سمت سے اک بار کرنا مجھے بھی رفتہ رفتہ آ گیا ہے خود اپنے کام کو دشوار کرنا نہیں یاروں میں سچ سننے کا یارا برہنہ مستیٔ گفتار کرنا میں تنہائی میں بیٹھا رو رہا ہوں بہت اچھا لگا تھا پیار کرنا

    مزید پڑھیے

    دل کو ہم دریا کہیں منظر نگاری اور کیا

    دل کو ہم دریا کہیں منظر نگاری اور کیا پرسش احوال آقا کم عیاری اور کیا اپنے منظر سے الگ ہوتا نہیں ہے کوئی رنگ اپنی آنکھوں کے سوا باد بہاری اور کیا ہم بھی کچھ کہتے پہ اس کی گفتگو کا سلسلہ ختم ہوتا ہی نہیں ہے ہوشیاری اور کیا سب اٹھا کر لے گئیں میری جنوں سامانیاں اب ستائے گی ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    زمیں نے کر دیا اس طرح رائیگاں مجھ کو

    زمیں نے کر دیا اس طرح رائیگاں مجھ کو نظر نہ آیا کبھی درد اور دھواں مجھ کو تلاش کرتا ہے اک دوسرا جہاں مجھ کو ادھورا لگتا ہے یہ جان کا زیاں مجھ کو بچھے ہوئے ہیں تسلسل سے جلتے بجھتے چراغ ہجوم لالہ و گل لے گیا کہاں مجھ کو بھٹک رہے ہیں نظر میں نقوش گرد و باد جگا کے چھوڑ گئے پائے ...

    مزید پڑھیے

    شب کو ہر رنگ میں سیلاب تمہارا دیکھیں

    شب کو ہر رنگ میں سیلاب تمہارا دیکھیں آنکھ کھل جائے تو دریا نہ کنارا دیکھیں دشت آغوش میں رم خوردہ چکارا دیکھیں یہ حسیں خواب بھی اک روز قضارا دیکھیں جانے کیا صورت حالات رقم تھی اس میں جو ورق چاک ہوا اس کو دوبارا دیکھیں نیند آئے بھی تو تسبیح بدن کرتے ہوئے اور پھر ساتھ اٹھیں صبح ...

    مزید پڑھیے

    زمین ختم ہوئی سر پر آسماں نہ رہا

    زمین ختم ہوئی سر پر آسماں نہ رہا اسی کے ساتھ کوئی خوف امتحاں نہ رہا ہمارے عشق کا کوئی گواہ زندہ نہیں عذاب ہجر تھا اب وہ بھی درمیاں نہ رہا تمام رات ستارے ہمیں کو دیکھتے تھے طلسم ذات سے نکلے تو یہ جہاں نہ رہا فصیل شہر پہ شب زندہ دار رہتے تھے ہجوم شہر میں ایسا کوئی جواں نہ رہا یہ ...

    مزید پڑھیے

    نقش یقیں ترا وجود وہم بجھا گماں بجھا

    نقش یقیں ترا وجود وہم بجھا گماں بجھا کار حبیب کے طفیل روزن رائیگاں بجھا فرد سیاہ کو مری نوک سناں پہ لائے تھے ان کی نگاہ پڑ گئی عرصۂ امتحاں بجھا مست روی کے درمیاں کون قدم قدم گنے مشعل دل کہاں جلی شعلۂ جاں کہاں بجھا میرے جنوں کا سلسلہ مرحلہ وار ہو گیا پہلے زمین بجھ گئی بعد میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ اک اور ہم نے قرینہ کیا

    یہ اک اور ہم نے قرینہ کیا در یار تک دل کو زینہ کیا بدل دی ہے سب صورت آب و خاک مگر جب لہو کو پسینہ کیا وہ کشتی سے دیتے تھے منظر کی داد سو ہم نے بھی گھر کا سفینہ کیا کہاں ہم تک آیا کوئی راز جو کہاں ہم نے دل کو دفینہ کیا فقیروں کا یہ بھی طلسمات ہے لہو رنگ کو آبگینہ کیا چمکنے لگا پھر ...

    مزید پڑھیے

    میری آہوں سے جلا چاہتا ہے

    میری آہوں سے جلا چاہتا ہے آسماں رد بلا چاہتا ہے مجھ کو تو مرضیٔ مولا اولیٰ اور دل سب کا بھلا چاہتا ہے برش تیغ نہ میلی ہو جائے با صفا ہوں وہ گلا چاہتا ہے آئنہ ہو گیا آئینہ سرشت یعنی وہ مجھ میں ڈھلا چاہتا ہے موج در موج گلستاں سارا میرے دامن پہ کھلا چاہتا ہے بوریے کو کہا سامان ...

    مزید پڑھیے

    ہر شاخ پہ تھی وفا کی قندیل (ردیف .. ے)

    ہر شاخ پہ تھی وفا کی قندیل اے شہر بتا کہاں وہ بن ہے بجتی ہوئی خون کی روانی خواہش کی گرفت میں بدن ہے لڑتے لڑتے بکھر گئے ہیں اب جو بھی جہاں ہے نعرہ زن ہے ہر جہت مجھے پکارتی ہے ہر سمت وہ رنگ پیرہن ہے لیتا ہے وجود گرم سانسیں ایک شعلۂ شوق وہ بدن ہے یہ کون دھنک نہا کے نکلی گل بوٹا چمن ...

    مزید پڑھیے

    وہ اب نمائش سیر و سفر سے باہر ہے

    وہ اب نمائش سیر و سفر سے باہر ہے یہ میرے ساتھ مگر رہ گزر سے باہر ہے وہی مقیم ہے جو اپنے گھر سے باہر ہے کہ جتنا سایہ ہے سارا شجر سے باہر ہے مرے خدا یہ تب و تاب صفحہ کیسی ہے جو لکھ رہا ہوں وہ کلک ہنر سے باہر ہے ضمیر خاک کو اب زہر ہی لکھو یعنی علاج اس کا کف چارہ گر سے باہر ہے چلو نماز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3