وہ اب نمائش سیر و سفر سے باہر ہے

وہ اب نمائش سیر و سفر سے باہر ہے
یہ میرے ساتھ مگر رہ گزر سے باہر ہے


وہی مقیم ہے جو اپنے گھر سے باہر ہے
کہ جتنا سایہ ہے سارا شجر سے باہر ہے


مرے خدا یہ تب و تاب صفحہ کیسی ہے
جو لکھ رہا ہوں وہ کلک ہنر سے باہر ہے


ضمیر خاک کو اب زہر ہی لکھو یعنی
علاج اس کا کف چارہ گر سے باہر ہے


چلو نماز پڑھیں اور قریب لے آئیں
شجر دعا کا ہماری سحر سے باہر ہے


اسیر ہے مری کھینچی ہوئی لکیروں کا
یہ وہم ہے کہ وہ میرے اثر سے باہر ہے


یہ عجز ہے کہ قناعت ہے کچھ نہیں کھلتا
بہت دنوں سے وہ خیر و خبر سے باہر ہے


نہ جانے کیا ہے کسی چاک پر ٹھہرتی نہیں
ہماری خاک گل کوزہ گر سے باہر ہے