کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے
کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے کہ سارا مرحلہ طے مجھ سے برملا ہوا ہے نشستیں پر ہیں چراغ و ایاغ روشن ہیں بس ایک میرے نہ ہونے سے آج کیا ہوا ہے اٹھا کے رکھ دو کتاب فراق کو دل میں کہ یہ فسانہ ازل سے مرا سنا ہوا ہے کبھی نہ خالی ملا بوئے ہم نفس سے دماغ تمام باغ میں جیسے کوئی چھپا ...