زمیں نے کر دیا اس طرح رائیگاں مجھ کو

زمیں نے کر دیا اس طرح رائیگاں مجھ کو
نظر نہ آیا کبھی درد اور دھواں مجھ کو


تلاش کرتا ہے اک دوسرا جہاں مجھ کو
ادھورا لگتا ہے یہ جان کا زیاں مجھ کو


بچھے ہوئے ہیں تسلسل سے جلتے بجھتے چراغ
ہجوم لالہ و گل لے گیا کہاں مجھ کو


بھٹک رہے ہیں نظر میں نقوش گرد و باد
جگا کے چھوڑ گئے پائے رفتگاں مجھ کو


خود اپنی لوح تمنا پہ کھل کے دیکھوں گا
کسی کے جبر نے لکھا تھا رائیگاں مجھ کو


یہ کس کے اذن و رضا سے بہک رہے ہیں بدن
فریب رنگ نہ دے پایا یہ جہاں مجھ کو


سوائے‌‌ حزن و ہزیمت جگہ نہیں دل میں
اگر وہ پھیر بھی دے لشکر و نشاں مجھ کو


کسی کے بس میں نہیں ہے کشاد قلب و نگاہ
ملا تھا اپنی ہی قسمت کا سائباں مجھ کو


ہٹے یہ غازۂ شب رنگ تو اسے دیکھوں
پسند ہی نہیں آئینہ درمیاں مجھ کو


تمام بار الم دفعتاً گرا سر سے
یہ راستے میں ملا کون ناگہاں مجھ کو