زمین ختم ہوئی سر پر آسماں نہ رہا
زمین ختم ہوئی سر پر آسماں نہ رہا
اسی کے ساتھ کوئی خوف امتحاں نہ رہا
ہمارے عشق کا کوئی گواہ زندہ نہیں
عذاب ہجر تھا اب وہ بھی درمیاں نہ رہا
تمام رات ستارے ہمیں کو دیکھتے تھے
طلسم ذات سے نکلے تو یہ جہاں نہ رہا
فصیل شہر پہ شب زندہ دار رہتے تھے
ہجوم شہر میں ایسا کوئی جواں نہ رہا
یہ زندگی ہے تو ہم زندگی سے باز آئے
وہ جان کیا کہ جہاں جان کا زیاں نہ رہا
تمام لفظ ہیں تفہیم نو پہ آمادہ
قیامتوں سے گزرنا بھی ناگہاں نہ رہا
بس اک سلیقۂ تجسیم خواب تھا مگر اب
سوائے سینۂ صد چاک کچھ نشاں نہ رہا
میان گردش افلاک تو بھی خوش ہو جا
ملال ہم کو بھی اے سعیٔ رائیگاں نہ رہا
خراب و خستہ و آسودگان منزل بھی
نوید جشن کہ حقیؔ کا کارواں نہ رہا