Aajiz Hengan Ghati

عاجز ہنگن گھاٹی

  • 1936 - 2008

عاجز ہنگن گھاٹی کی غزل

    منہ جو دیکھے آئینہ گر کانچ کا

    منہ جو دیکھے آئینہ گر کانچ کا مسکرا اٹھے مقدر کانچ کا بھول جاؤں گا میں اپنے آپ کو عکس پہچانے گا جو ہر کانچ کا پتھروں کا ہے نصیبہ اوج پر لے گئی تہذیب جھومر کانچ کا ہاتھ سے بچے کے پتھر چھین لو آدمی ہے میرے اندر کانچ کا وائیپر کے رقص سے عاجزؔ اسے فیض پہنچا زندگی بھر کانچ کا

    مزید پڑھیے

    سینہ لہولہان ہے کالی چٹان کا

    سینہ لہولہان ہے کالی چٹان کا پتھر میں بھی گمان سا ہوتا ہے جان کا چھوٹا سا ایک تنکا چڑیا کی چونچ میں شہتیر لگ رہا تھا جو اونچے مکان کا قندیل لے کے خود ہی وہ خندق میں جا گرا نعرہ لگا رہا تھا ابھی ساؤدھان کا ہے سامنے سے آنکھ ملانے کا لطف اور کھیلے گا کیا شکار شکاری مچان کا عاجزؔ ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا

    زخموں کے دہن بھر دے خنجر کے نشاں لے جا بے سمت صداؤں کی رفعت کا گماں لے جا احساس بصیرت میں عبرت کا سماں لے جا اجڑی ہوئی بستی سے بنیاد مکاں لے جا شہروں کی فضاؤں میں لاشوں کا تعفن ہے جنگل کی ہوا آ جا جسموں کا دھواں لے جا ہے اور ابھی باقی تاریک سفر شب کا اگنے دے نیا سورج پھر چاہے ...

    مزید پڑھیے

    جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ

    جتنی تیزی سے آ رہا تھا وہ لوٹ کر دور جا رہا تھا وہ صرف رشتے کی بات پر یارو عمر اپنی چھپا رہا تھا وہ تتلیاں جتنی سامنے آئیں رنگ سب کے چرا رہا تھا وہ دل کسی سے نہیں ملا اس کا ہاتھ سب سے ملا رہا تھا وہ زخم خوردہ صداؤں کو عاجزؔ خامشی سے اٹھا رہا تھا وہ

    مزید پڑھیے

    ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا

    ایک اک پتا ہواؤں سے ہے لڑنے والا پیڑ اس کا نہیں آندھی سے اکھڑنے والا راہ چلتے ہوئے انگلی بھی کسی کی نہ پکڑ بھیڑ میں ہوتا ہے ہر شخص بچھڑنے والا اک ہمکتے ہوئے بچے کی طرح ضد نہ کر خوش نما جسم کھلونا ہے بگڑنے والا ختم محلوں کی روا داری کا دستور ہوا اب یہاں کون ہے دیوار میں گڑھنے ...

    مزید پڑھیے