عابد ادیب کی غزل

    شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا

    شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا کہ رات جشن میں تیرے حضور میں بھی تھا عجیب وقت تھا دنیا قریب تھی میرے غضب یہ تھا ترے دامن سے دور میں بھی تھا غموں کے گھیرے میں جب رقص کر رہی تھی حیات تماش بیں کی طرح بے شعور میں بھی تھا نہ رکنا راہ میں شرط سفر میں شامل تھا تھکن سے ورنہ بہت چور چور ...

    مزید پڑھیے

    کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں

    کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں بہہ گئے آنکھوں سے دریا اور آنکھیں نم نہیں صاف تھا ہر لفظ اس کی بے بدل تقریر کا پھر لہو نے نقش جو چھوڑے ہیں وہ مبہم نہیں ہر زمانہ میں نہیں پہچاننا مشکل انہیں سر قلم ہوتے رہیں گے ان کے لیکن غم نہیں کربلا ہی نے کیے ہیں مرتسم دل پر نقوش ورنہ اس ...

    مزید پڑھیے

    یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا

    یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا وہ کل یہاں مرا مہمان بن چکا ہوگا تلاش میں ہوں کسی کی میں کب سے سرگرداں اسی طرح کوئی مجھ کو بھی ڈھونڈھتا ہوگا مری طرح سے کوئی چیختا ہے راہوں میں مری طرح کوئی دنیا کو دیکھتا ہوگا لگا کے آئے گا چہرہ کوئی نیا شب میں وہ جس کو بیٹھ کے دن میں تراشتا ...

    مزید پڑھیے

    کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ

    کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ پھر بھی منزل پا لیتے ہیں ہم جیسے زندہ دل لوگ وہ دیکھو ساگر گرجا طوفان اٹھا نیا ڈوبی اور تماشہ دیکھ رہے ہیں بیٹھے ساحل ساحل لوگ بزم سجا کر بھینٹ کیے ہیں ہمدردی کے چند الفاظ میرا دکھڑا بانٹ رہے ہیں میرے غم میں شامل لوگ بستی بستی گھوم ...

    مزید پڑھیے

    یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا

    یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا عمر کا کارواں نہ ٹھہرے گا چھوڑ دی ہے جگہ ستونوں نے سر پہ اب سائباں نہ ٹھہرے گا ریت پر ہے اثر ہواؤں کا کوئی نام و نشاں نہ ٹھہرے گا ہر قدم جو تمہاری سمت اٹھا سعیٔ رائیگاں نہ ٹھہرے گا مرحلہ آ گیا تصادم کا فاصلہ درمیاں نہ ٹھہرے گا دل کا سودا ہے کار دل ...

    مزید پڑھیے

    جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے

    جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے دنیا ہمیشہ برسر پیکار سی لگے ہر ہر نفس پہ رنگ بدلتی ہے زندگی اک پھول سی لگے ہے کبھی خار سی لگے چہرہ ہے میرے دوست کا یا کوئی آئنہ دیکھوں الٹ پلٹ کے تو بھی آرسی لگے عادت سی پڑ گئی ہے اسے بولنے کی تیز وہ بات بھی کرے ہے تو تکرار سی لگے تم ساتھ ہو ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

    سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے وہ سچ ہی کہتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام

    حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام آسماں کی نیلگوں آنکھوں میں تھے منظر تمام رفتہ رفتہ رسم سنگ باری جہاں سے اٹھ گئی دھیرے دھیرے ہو گئے بستی کے سب پتھر تمام تشنہ لب دھرتی پہ جب بہتا ہے پیاسوں کا لہو مدتوں مقتل میں سر خم رہتے ہیں خنجر تمام زندگی بکھری ہوئی ہے اس طرح فٹ پاتھ ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں

    میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں کہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا میں کون ہوں کیا ہوں انہیں خوشی ہے اسی بات سے کہ زندہ ہوں میں ان کی دائیں ہتھیلی کی ایک ریکھا ہوں میں پی گیا ہوں کئی آنسوؤں کے سیل رواں میں اپنے دل کو سمندر بنائے بیٹھا ہوں وہ میرے دوست جو ایک ایک کرکے دور ہوئے میں ...

    مزید پڑھیے

    گیتوں کا شہر ہے کہ نگر سوز و ساز کا

    گیتوں کا شہر ہے کہ نگر سوز و ساز کا قلب شکستہ اور یہ عالم گداز کا چاروں طرف سجی ہیں دکانیں خلوص کی چمکا ہے کاروبار ہر اک حیلہ ساز کا وہ چاہے خواب ہو کہ حقیقت مگر کبھی احساں اٹھائے گا نہ لباس مجاز کا جس طرح چاہا جائے ہے چاہا نہیں ابھی اندیشہ جان کھائے ہے افشائے راز کا بہروپیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2