عابد ادیب کی نظم

    ناکامی

    وہ جد و جہد کرنا چاہتا تھا مگر جب سے اس نے اپنے جھونپڑے کو پختہ مکان میں بدلنے کا خواب دیکھا تھا وہ کئی دائمی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا تھا

    مزید پڑھیے

    نہ مرنے کا دکھ

    کوئی میرے لرزتے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ اور قلم پکڑا رہا تھا کبھی کچھ زیر لب ہی بڑبڑا کر کوئی اثبات میں آنکھوں کی اور ماتھے کی جنبش چاہتا تھا کبھی دانتوں میں ہونٹوں کو دبا کر کوئی رونے کی کوشش کر رہا تھا کوئی تو چند لمحوں بعد اپنے بال بکھرانے گریباں نوچنے کی فکر میں تھا کوئی غمگیں ...

    مزید پڑھیے

    ریگستان کی دوپہر

    یہاں تو نہ پیڑ ہے نہ سایہ نہ گھر ہے نہ گھر میں رہنے والے نہ زندگی ہے نہ کوئی ہلچل یہاں تو تا حد نظر دھوپ ہی دھوپ ہے ریت ہی ریت ہے دھوپ ہی دھوپ ہے تن کو جھلساتی دھوپ آگ برساتی دھوپ دھول اڑاتی دھوپ ریت اڑاتی ایک دم پرائی دھوپ

    مزید پڑھیے

    برأت

    رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو پھر تھم گیا ہے ہوائیں تیز ہیں سانسوں کی ہلچل رک گئی ہے ریڑھ کی ہڈی میں چیونٹی رینگتی ہے جسم میں پورے حرارت بڑھ گئی ہے ذائقہ کڑوا کسیلا ہو گیا ہے کہ شاید پھر کوئی اپنا پرایا ہو گیا ہے

    مزید پڑھیے

    ابن الوقت

    آگ کے شعلے اتارو حلق میں گاڑ دو کیلیں دھڑکتی چھاتیوں میں ڈال دو گردن میں پھندے رسیوں کے قتل کر لو خون کی ندیاں بہا لو ہو نہتا کوئی تو گولی چلا لو پھر بھی ہو کوئی کسر تو پوری کر لو جیت کا اعلان کر دو پھر بھی تم ڈرتے رہو گے اور ہر یگ میں تمہاری ہار ہی ہوتی رہے گی پھر بھی تم چہرے بدل کر ...

    مزید پڑھیے

    آرزؤں کو وسعت نہ دو

    آرزؤں کو وسعت نہ دو اپنے ہی دائرے میں مقید کرو ورنہ یہ پھیل کر ہر طرف سے تمہیں گھیر لیں گی نوچ ڈالیں گی زخمی کریں گی خود بکھر جائیں گے مر جائیں گے اپنی ہی لاش سر پر اٹھائے بیچ بازار ننگے پھرو گے اپنے ہی لوگ نزدیک آ کر تم کو دیکھیں گے منہ پھیر لیں گے تم کو غلطی کا احساس ہوگا تھوک ...

    مزید پڑھیے

    احساس

    پھر مجھے ایسا لگا جیسے کاغذ پر سیاہی پھیلنے سے لفظ گڈمڈ ہو گئے ہوں آئنہ دھندلا گیا ہو جانے پہچانے ہوئے سب لوگ جیسے اجنبی سے بن گئے ہوں میرے کمرے میں پڑی ٹیبل کے خانوں سے نکل کر خط ہوا میں اڑ رہے ہوں باکس میں رکھا ہوا رومال شعلہ بن گیا ہو برف کے تودوں تلے دب کر ذہن بھی منجمد ہونے ...

    مزید پڑھیے

    سناٹا

    مختلف موضوعات پر رات بھر باتیں کرکے وہ لوگ تھک چکے تھے اور پھر ایسے وعدوں میں بندھ گئے تھے جس کا پورا ہونا ممکن نہ تھا کیونکہ کچھ لمحوں بعد وہ سب اپنا اپنا سامان اٹھائے مختلف راستوں پر چل پڑے تھے اور اسٹیشن پر سناٹا تھا

    مزید پڑھیے