جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے

جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے
دنیا ہمیشہ برسر پیکار سی لگے


ہر ہر نفس پہ رنگ بدلتی ہے زندگی
اک پھول سی لگے ہے کبھی خار سی لگے


چہرہ ہے میرے دوست کا یا کوئی آئنہ
دیکھوں الٹ پلٹ کے تو بھی آرسی لگے


عادت سی پڑ گئی ہے اسے بولنے کی تیز
وہ بات بھی کرے ہے تو تکرار سی لگے


تم ساتھ ہو تو ہم بھی بیاباں کو گھر کریں
یہ سخت دھوپ سایۂ دیوار سی لگے


ہر ہر قدم پہ جیسے کہ بکتا ہو آدمی
بستی تمام مصر کے بازار سی لگے


عابدؔ تمام شہر پہ عالم ہے کون سا
ہر ایک شکل نقش بہ دیوار سی لگے