کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں

کارنامہ اے غم دل کچھ ترا یہ کم نہیں
بہہ گئے آنکھوں سے دریا اور آنکھیں نم نہیں


صاف تھا ہر لفظ اس کی بے بدل تقریر کا
پھر لہو نے نقش جو چھوڑے ہیں وہ مبہم نہیں


ہر زمانہ میں نہیں پہچاننا مشکل انہیں
سر قلم ہوتے رہیں گے ان کے لیکن غم نہیں


کربلا ہی نے کیے ہیں مرتسم دل پر نقوش
ورنہ اس دنیا میں غم کی وارداتیں کم نہیں


دل ہی دل وہ بھیگی لکڑی کی طرح سلگا کیا
اس کے چہرے سے تو لگتا تھا کہ کوئی غم نہیں


کیفیت کیسی عجب اس شہر کی یادوں کی ہے
گرم ہے آتش نہیں اور سرد ہے شبنم نہیں


اک الگ تہذیب ہے تنہائیوں کے شہر کی
ایک ہی عالم ہمیشہ اور کوئی موسم نہیں


پھر رہے ہیں لوگ پھر ہاتھوں میں سنگریزے لیے
اور اپنے سر میں سودا اس گھڑی کچھ کم نہیں


ہم سے عابدؔ اپنے رہبر کو شکایت یہ رہی
آنکھ موندے ان کے پیچھے چلنے والے ہم نہیں