شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا

شریک عالم کیف و سرور میں بھی تھا
کہ رات جشن میں تیرے حضور میں بھی تھا


عجیب وقت تھا دنیا قریب تھی میرے
غضب یہ تھا ترے دامن سے دور میں بھی تھا


غموں کے گھیرے میں جب رقص کر رہی تھی حیات
تماش بیں کی طرح بے شعور میں بھی تھا


نہ رکنا راہ میں شرط سفر میں شامل تھا
تھکن سے ورنہ بہت چور چور میں بھی تھا


اتر رہا تھا لہو کس بلا کا آنکھوں میں
ترے خیال میں اس دم ضرور میں بھی تھا


گزرتے وقت نے پہرے بیٹھا دئے عابدؔ
خطائیں ان کی نہ تھیں بے قصور میں بھی تھا