عطا کر مجھ کو نظارے کی تاب آہستہ آہستہ
عطا کر مجھ کو نظارے کی تاب آہستہ آہستہ
اٹھا روئے منور سے نقاب آہستہ آہستہ
کرم کی آرزو کیا جب کرم ہو جور پیہم کا
گوارا ہوتا جاتا ہے عتاب آہستہ آہستہ
وہ چھپ چھپ کر ملاقاتیں وہ حسن و عشق کی باتیں
سوال آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
تری چشم تغافل رفتہ رفتہ ہو گئی مائل
ہوا جذب محبت کامیاب آہستہ آہستہ
سر محشر نہ بن آیا مبارکؔ جب جواب ان سے
اٹھی میری طرف چشم پر آب آہستہ آہستہ