اپنی ماں کی دعائیں پاتا ہوں

اپنی ماں کی دعائیں پاتا ہوں
اس لئے ہی تو مسکراتا ہوں


پیار کی بھوک جب ستاتی ہے
دوستوں سے فریب کھاتا ہوں


یہ بھی میرے لئے عبادت ہے
راستوں میں دیے جلاتا ہوں


لوگ فرہاد مجھ کو کہتے ہیں
گھر میں جب جوئے شیر لاتا ہوں


مجھ کو پتھر حبیب لگتا ہے
جب اسے حال دل سناتا ہوں


اس سے میں کچھ بھی لے نہیں سکتا
جب وہ کہتا ہے لے میں داتا ہوں


میرے غم میرے بچوں جیسے ہیں
میں جنہیں گود میں کھلاتا ہوں


وہ ہی جڑواتا ہے انگوٹھی میں
جس کسی کو میں راس آتا ہوں


لوگ سمجھے کہ اشک بہتے ہیں
میں تو آنکھوں سے گیت گاتا ہوں


دوسرے سے نہیں غرض مجھ کو
میں تو بس اپنے من کو بھاتا ہوں


میری آنکھیں ہیں میری شاگردہ
شرم کرنا جنہیں سکھاتا ہوں


لطف‌ پرواز لینے کی خاطر
من کے پنچھیؔ کو خود اڑاتا ہوں